اجنبی رنگ :::::: سرفراز آرش

طارق شاہ

محفلین
اجنبی رنگ
سرفراز آرش

اجنبی رنگ ، چشمِ ِتمازت میں محصُور بے نُور خوابوں کی رنگت کو روتے رہے
میں پہاڑی کے ٹیلے پہ موجود تھا
برف گرتی رہی، خون جمتا رہا
ایک عریانی عریاں بدن کو چھپانے لگی تھی
"حرارت دعاؤں کی داسی نہیں"
کڑوے پانی کی چھاگل سے اسباب ٹپکائےتھے
آگ بھڑکائی تھی
بند رستوں میں حدت گزر گہ بنی
خون چلنے لگا
سانس نے آس تک کا سفر ہچکیوں،سسکیوں کے سہارے کیا
پھر کہیں تجھ کو یخ بستگی سے الاو کی قربت مِلی
"رہنمائی مری قابلیت کی قائل نہیں"
دل کے آتش کدے میں مجھے تلخ یادیں جلاتے ہوئے سبز رستے ودیعت ہوئے تھے مگر
"میں سہولت سے چرنے کا عادی نہیں"
زندگی میں کبھی چشمِ ایثار کا کوئی نوحہ سنا ؟
مرکزی آئینے میں سراسیمہ خلوت کا دکھ اور ہے
یہ نمائش کی رانوں میں بہتا نہیں
میری الماری میں روشنی کی جو پڑیا کئی سالہ گرہوں کے باعث علالت میں ہے
تندرستی کا مہفوم چندیا چُکی
اب ضرورت نہیں
جسم کی بعثت ِدل پذیر آئے آواز دیتی رہے
رونگٹھے اور انگڑائی بیعت کا اعلان کرتے رہیں
اجنبی ساحرہ
میں کرائے کے جذبات جیتا نہیں
رنگ پیتا نہیں
رنگ گھل جاتے ہیں
اور اکثر تو اشکوں میں دھل جاتے ہیں
تیرے چہرے کی مایوسی اپنی جگہ
میرے بستر پہ آراستہ بے شکن صبر بھی تو سمجھ
اجنبی ساحرہ
مجھ کو درپیش ایقان کا یہ مرض
میری بینائی سے رنگ دھندلا گیا
پھر انہیں کھا گیا
اب میں رنگوں کے درجوں سے واقف نہیں
اجنبی ہی سہی ایک جیسے تو ہیں
اے پری زاد اب
آخری دور ہے
اندر اک شور ہے
اور دروازے پر منتظر رنگ موجود ہیں
یہ سبھی تیرے بےنور خوابوں کی رنگت پہ روتے رہے
ان میں آنکھیں ڈبو کر نظارے بدل
اور سفر کی روایت کا آغاز کر
میں دعا کرتا ہوں
اجنبی رنگ تیری حفاظت کریں
سرخ آنکھوں کی لالی سفیدی میں ڈھلنے لگی
اب تشکر کا سورج نکل آئے گا

سرفراز آرش
 
Top