اتباف ابرک

سحر کائنات

محفلین
اک مسلسل سے امتحان میں ہوں
جب سے رب میں ترے جہان میں ہوں

صرف اتنا سا ہے قصور مرا
میں نہیں وہ ہوں جس گمان میں ہوں

کون پہنچا ہے آسمانوں تک
ایک ضدی سی بس اڑان میں ہوں

جس خطا نے زمین پر پٹخا
ڈھیٹ ایسا، اسی دھیان میں ہوں

اپنے قصے میں بھی یوں لگتا ہے
می‍ں کسی اور داستان میں ہوں

در و دیوار بھی نہیں سنتے
اتنا تنہا میں اس مکان میں ہوں

زندگی اک لحافِ ململ ہے
سرد موسم ہے کھینچ تان میں ہوں

تولتی ہیں مجھے یوں سب نظریں
جیسے میں جنس ہوں دکان میں ہوں

کوئی سمجھا نہ میری بات ابرک
میں کسی اور ہی زبان میں ہوں

................................ ... اتباف ابرک
 
Top