اب مثبت سوچناشروع کریں ۔

سحرش سحر

محفلین
اگر آپ مشاہدہ کریں تو ہمارے ارد گرد بعض لوگوں کوخواہ مخواہ کسی بھی بات میں صرف منفی پہلو نکالنے کی بیماری ہوتی ہے انھیں کچھ مثبت نظر آتا ہی نہیں ہے ۔
اپنی اس روش کو وہ حق ازادئ رائے کا نام دیتے ہیں کہ تنقید کرنا ہر کسی کا حق ہے ۔ بے شک یہ ان کا حق ہے مگر تنقید صرف کیڑے نکالنے کا نام نہیں بلکہ کسی چیز کے، کسی بات کے مثبت و منفی دونوں پہلو دیکھنے کا نام ہے ۔ ایسے لوگوں کو تنگ نظر کہا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے یہ لوگ بڑےکشادہ قلب و نظر کے حامل ہوتے ہیں ان کی یہ تنگ نظری تو عام لوگوں کے لیے ہی ہوتی ہے ۔ کسی بڑے نواب، خان، رئیس، سرمایہ کار ، یورپ و امریکہ کی ہر ہر ادا مثبت و منفی ان کو بہت بھاتی ہے ۔ ان کی ہاں میں ہاں ملانا وہ جانتے ہوتے ہیں ۔ ان کے مثبت پہلووں پر تو دل و جان سے فدا ہوتےہیں مگر ان کے منفی رویووں کے لیے بھی سو جواز پیش کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے ۔
دوسروں پر طنز کے تیر برسانا، مذاق اڑانا 'خود سے کمتر سمجھنا،یہ سب احساس برتری کے لبادہ میں احساس کمتری میں مبتلہ لوگوں کاہی وطیرہ ہوتا ہے ۔ ایسے افراد کے طرز عمل کی وجوہات کچھ بھی ہو سکتی ہیں ۔ یہ لوگ دوسروں سے خود کو مختلف سمجھنے یا دوسرے سے خود کو برتر سمجھنے یا کسی احساس محرومی یا کسی انتقامی جذبہ کا شکار بھی ہو سکتے ہیں ۔
منفی سوچ کے حامل انسان کسی کو خوشی دینا نہیں جانتے بلکہ دوسروں کو خوش دیکھ کر جی ہی جی میں کڑھتے ہیں ۔ جلتے ہیں ۔بےسکونی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
یہ ان کے اندر کی تلخی و نفرت کا زہر ہی ہوتا ہے جس میں بجھے ہوئے طنز کے تیر برسا کر دوسروں کو دل کو چھلنے کرتے رہتے ہیں ۔ دوسرے انسانوں کی دل آزاری میں ان کو ایک طرح کا سکون ملتا ہے
ایسے اذیت پسند لوگ ہر سوسائٹی میں پائے جاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کا مقصد کسی کی اصلاح کرنا نہیں ہوتا بلکہ مزید بگاڑ پیدا کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں ۔ ان کو یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کسی کی مثبت بات کو سراہنے پرکہیں وہ پر عزم ہو کر ان سے آگے ہی نہ بڑھ جائے ۔ یہ لوگ اپنے جیسے لوگوں کو آگے بڑھتا ہوا دیکھ ہی نہیں سکتے ۔
اس دنیا میں بچہ سے لیکر بوڑھے تک کسی بھی انسان کو دکھی کرنا انتہائی آسان کام ہے ۔ افسوس کہ آپ اتنے بڑے ہو کر بھی یہی کام کر رہے ہیں ۔ ایک باشعور انسان ہونے کے ناطے اپنی سوچ بدلیں ۔ اپنی محرومی کی سزا دوسروں کو مت دیں ۔ ہر چھوٹے بڑے ، غریب امیر، پاکستان امریکہ کے لیے دل کشادہ رکھیں ۔ سب انسان ہیں آپ جیسے ۔ ہر کسی دل پہلے ہی سے دکھی ہے آپ کی طرح ۔ اپنے منفی رویے سے کسی کو مزید دکھی مت کریں ۔ کیا پتہ وہ آپ سے زیادہ دکھی ہو ۔ آپ سے زیادہ حالات کا ستایا ہوا ہو، آپ سے زیادہ وہ اس سوسائٹی سے خفہ ہو ۔ کہیں آپ کا یہ منفی طرز عمل کسی کے برداشت کے لیول سے بڑھ کر اس کی آنکھ سے قیمتی آنسو ٹپکنے کا باعث ہی نہ بن جائے اور اگر ایسا ہوا تو سمجھیں آپ انتہائی ................انسان ہیں ۔
باقی آپ خود سوچیں ۔
سحرش سحر
 

محمداحمد

لائبریرین
کچھ ہمارے جیسے منفی سوچ کے لوگ بھی ہوتے ہیں ۔

جو تحریر پڑھنے سے پہلے عنوان کے پہلےہی لفظ پر ہی آپ کی گرفت کر لیں گے کہ

بھئی یہ "اب" سے کیا مراد ہے؟ :confused::evil:

کیا اس سے پہلے ہم مثبت سوچ نہیں رکھتے تھے۔ :arrogant:

مطلب آپ نے یہ سوچ کیسے لیا کہ ہمیں اپنا رویہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ :at-wits-end:

ارے بھئی ! آپ پہلے اپنے معاملات درست کریں۔ پھر دوسروں سے کچھ کہیے گا۔ ہاں۔ :confused1:

جسٹ کڈنگ! :D:p
 
Top