ابے او جاہل

فیضان قیصر

محفلین
دور سے نظر آتے سگنل کی بتی پیلے ہوتے ہی ٹریفک کی روانی سست ہونا شروع ہوگئی اور سگنل کے لال ہونے تک ٹریفک مکمل طور پہ رک چکا تھا. میں نے بھی گاڑی روکی اور ہینڈ بریک کھینچ کر گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگاکر بیٹھ گیا. اسی دوران میری گاڑی کے اطراف اور بھی کئی گاڑیاں، رکشہ، موٹر سائکلیں یکے بعد دیگرے رکتی چلی گئیں - ٹریفک قوانین سے عاری اور تنظیم سے مکمل فارغ اس قوم کا ٹریفک سگنل پر رکنے کا بھی اپنا ہی انداز ہوتا ہے- سگنل پر ٹہرے رکشے، موٹر سائکلیں اور دیگر گاڑیاں ایک دوسرے کے اندر یوں گھسے ہوئے تھے- جیسے مرغی والے کی دکان پرپنجرے میں مرغیاں - میں گاڑی میں بیٹھے ہوئے عادتاً پاکستانیوں کی حالت زار، جہالت سے بھرپور مگر ادارک سے عاری رویوں، انکے سدھار کے لیے تجاویز اور اسی طرح کے کئ اور دیگر خیالات پر غور و فکر میں مشغول ہوگیا- ںظریں کبھی دائیں کو اٹھتی تو کبھی بائیں کو- کبھی گاڑی کے اسٹیرنگ کو ڈرم سمجھ کر بجاتے اور منہ ہی منہ میں گاڑی میں چلنے والے گیت کو گنگناتے ہوئے سگنل کی طرف - اطراف میں صفائی ستھرائی اچھی معلوم ہورہی تھی- صاف ستھری سڑک اور فٹ پات کو دیکھ کر دل مسرور بھی تھا- شہر میں مختلف علاقوں میں گندگی کے ڈھیر دیکھنے کے بعد اس طرح کسی سڑک اور فٹ پات کو صاف دیکھ کر طبیعت میں احساس مسرت در آنا پاکستان میں اب شاید فطری عمل بن چکا ہے-خیر صاحب تفکر کا سلسلہ جاری تھا اور نظروں کی آوارہ گردی بھی کہ نظر یوں ہی ایک اجنبی موٹر سائکل سوار پر ٹہر گئی - اگرچہ اس میں کوئی خاص بات تو نہیں تھی- مگر پھر بھی میری مشتاق نظروں نے چند لمحوں کے دوران ہی اس کی شخصیت کا زائچہ کھینچ ڈالا - وہ شخص درمیانے قدوقامت کا حامل تھا اور عمر کے لحاظ سے پچاس کے پھیرے میں معلوم ہوتا تھا. اس کے سر کے بال قدرے گھنے اور سفیدی کی طرف مائل تھے- چہرہ اسکا لمبوترا سا تھا اور رنگ گہرا گندمی- آنکھیں گو کہ زیادہ بڑی تو نہ تھیں مگر چمک ان میں خوب تھی- جبکہ ناک طوطے کی چونچ کی مانند مخروطی تھی - اس کے چہرے پر سب سے زیادہ دلچسپ اس کی لمبی، گھنی، نوکیلی مونچھیں تھیں- جنھیں نہایت نفاست سے اس طرح تراشا گیا تھا کہ یوں معلوم یوتا تھا کہ جیسے دو تلواریں ہوں اور ایک دوسرے سے پشت ملائے بیٹھی ہوں- جسم اسکا فربہ مائل تھا اور پیٹ تھا کہ جیسے کوئی پانی کا مٹکا- اس نے سفید شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی- کاندھے پررنگین سا ایک رومال پڑا ہوا تھا جس سے وہ بار بار منہ پر آنے والے پسینے کو صاف کر رہا تھا - چہرے مہرے سے ہی معلوم ہوتا تھا کہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہے - پیشے کے لحاظ سے شاید چھوٹا موٹا دکاندار ہو یا کسی سرکاری دفتر کا کلرک یا شاید کسی مزدور پیسشے سے وابستہ کوئی شخص ہو - اسکا منہ غبارے کی مانند پھولا ہوا تھا اور وہ مستقل کسی چوپائے کی مانند جگالی کر رہا تھا- میرا خیال تھا کہ اس نے منہ میں شاید پان یا گٹکا دبایا ہوا ہو اور اس خیال کو حقیقت میں بدلنے میں زیادہ دیر بھی نہیں لگی-ابھی میں اس کی شخصیت کے جائزے میں ہی مصروف تھا کہ اسی لمحے اس نے جیب سے اپنا موبائل نکالا شاید اسکے موبائل پر کسی کی کال آئی تھی- موبائل پر بات کرنے سے پیشتر اس نے منہ میں جمع پان یا گٹکے کی پیک صاف ستھری فٹ پات پر یوں تھوکی جیسے ٹی بی میں مبتلا مریض خون تھوکتا ہے- منہ سے نکلی اس مکروہ پچکاری کے سبب اگلے ہی لمحے نگاہوں کے لیے فردوس جلوہ صاف ستھری فٹ پات اب آتش دوزخ کی مانند جی کو جلا رہی تھی - ناگواری کے اس احساس نے جب لفظوں کا لبادہ پہنا تو میرے منہ سے بے اختیار نکلا بڑا ہی کوئی "جاہل شخص" ہے- مگر وہ تھا کہ اپنے اطراف سے بے خبر بے نیازانہ فون پر گفتگو میں محو تھا. چند سیکنڈ کی کال کے اختتام پر اس نے فون دوبارہ جیب میں رکھ لیا- چونکہ اب سگنل کھلنے کے قریب تھا تو اس نے بائک کے ایکسیلیٹر پر ہاتھ رکھ کر بائک کو یوں آگے پیچھے ہچکولے دینا شروع کردیا کہ گویا سگنل کھلتے ہی وہ کمان سے نکلا تیر ہوجائے گا- اسکے پیچھے والے بائک سوار حضرت بھی ایکسیلیٹر پر ہاتھ رکھے اپنی بائک کو آگے پیچھے ہچکولے دے رہے تھے کہ یکایک پیچھے والی بائک آگے والی موٹر سائکل سے ٹکرا گئ - اگرچہ ٹکراؤ کچھ ایسا شدید بھی نہ تھا اور نہ ہی اسکی بائک کو کوئی نقصان پہنچا تھا. مگر پھر بھی وہ بھننا گیا تھا. منہ میں دوبارہ جمع ہوجانے والے لال غلیظ پانی کی پچکاری فٹ پات پر مارتے ہوئے وہ چلایا. "ابے او جاہل نظر نہیں آتا کیا"....
 
Top