ابراہیم اشک : دنیا لٹی تو دور سے تکتا ہی رہ گیا

سید زبیر

محفلین
دنیا لٹی تو دور سے تکتا ہی رہ گیا​
آنکھوں میں گھر کے خواب کا نقشہ ہی رہ گیا​
اس کے بدن کا لوچ تھا دریا کی موج میں​
ساحل سے میں بہاؤ کو تکتا ہی رہ گیا​
دنیا بہت قریب سے اٹھ کر چلی گئی​
بیٹھا میں اپنے گھر میں اکیلا ہی رہ گیا​
وہ اپنا عکس بھول کے جانے لگا تو میں​
آواز دے کے اس کو بلاتا ہی رہ گیا​
ہمراہ اس کے ساری بہاریں چلی گئیں​
میری زباں پہ پھول کا چرچا ہی رہ گیا​
کچھ اس ادا سے آکے ملا ہم سے اشک وہ​
آنکھوں میں جذب ہو کے سراپا ہی رہ گیا​
ابراہیم اشک​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اس کے بدن کا لوچ تھا دریا کی موج میں​
ساحل سے میں بہاؤ کو تکتا ہی رہ گیا​
بہت عمدہ انتخاب سر۔۔۔ زبردست​
 

عمراعظم

محفلین
دنیا بہت قریب سے اٹھ کر چلی گئی
بیٹھا میں اپنے گھر میں اکیلا ہی رہ گیا
واہ۔۔۔ بہت عمدہ انتخاب۔ شکریہ شریکِ محفل فرمانے کے لئے۔
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top