آیک غزل برائے اصلاح و تبصرہ،'' آخرش درد بلا خیز نے پھر آن لیا''


آخرش درد بلا خیز نے پھر آن لیا
جس سے بچتے تھے عدو تیز نے پھر آن لیا

اُس کی باتوں میں بڑی کاٹ تھی خنجر جیسی
بس رقابت میں فتن بیز نے پھر آن لیا

دل کے سنبھلا بھی نہیں تھا ترے غم سے پاگل
رنج رقت سے ہی انگیز نے پھر آن لیا

اس کہانی کا بھی انجام کوئی بتلاو
ختم بیماری، تو پرہیز نے پھر آن لیا

کاش خالی ہی پڑا رہتا مگر پے مانہ
اتنا اچھا تھا کہ لبریز نے پھر آن لیا

چھین تو لی تھی مگر ہائے کہاں آزادی
منہ سے چھٹتی نہیں انگریز نے پھر آن لیا

پھر سے موزوں ہے طبیعت تری اب کیا اظہر؟
فکر کی ندرت زرخیز نے پھر آن لیا
 
معزرت چاہتا ہوں اُستاد محترم، آپ جب بھی فرصت ہو دیکح لیجیے گا، مجھے کچھ غلتیاں لگیں، کوشش کی ہے درست کرنے کی


آخرش درد بلا خیز نے پھر آن لیا
جس سے بچتے تھے عدو تیز نے پھر آن لیا

اُس کی باتوں میں بڑی کاٹ تھی خنجر جیسی
بات ہی بات فتن بیز نے پھر آن لیا

دل سنبھالا بھی نہیں تھا ترے غم سے ہم نے
رنج اک رقت انگیز نے پھر آن لیا

اس کہانی کا بھی انجام کوئی بتلاو
ختم بیماری، تو پرہیز نے پھر آن لیا

کاش خالی ہی پڑا رہتا مگر پیمانہ
ایک خالی ہوا، لبریز نے پھر آن لیا

چھین تو لی تھی مگر ہائے کہاں آزادی
لے کے بیٹھے ہی تھے انگریز نے پھر آن لیا

پھر سے موزوں ہے طبیعت تری اب کیا اظہر؟
فکر کی ندرت زرخیز نے پھر آن لیا​
 
مزید کچھ تبدیلیاں



آخرش درد بلا خیز نے پھر آن لیا
جس سے بچتے تھے عدو تیز نے پھر آن لیا

میں نے محبوب رقیبوں سے چھپا رکھا تھا
پر رقیبان فتن بیز نے پھر آن لیا

اس کہانی کا بھی انجام کوئی بتلاو
ختم بیماری، تو پرہیز نے پھر آن لیا

خالی پیمانہ اگر رہتا تو اچھا ہوتا
رند بے ہوش کو لبریز نے پھر آن لیا

اسپ خاکی سے بچے حرب حیاہ میں لیکن
موت لکھی تھی، تو شبدیز نے پھر آن لیا

جان چھوٹی بڑی مشکل تھی ضیاء صاحب سے
آن کی آن مِِیں پرویز نے پھر آن لیا

پھر سے موزوں ہے طبیعت تری اب کیا اظہر؟
فکر کی ندرت زرخیز نے پھر آن لیا​
 
آخرش درد بلا خیز نے پھر آن لیا
جس سے بچتے تھے عدو تیز نے پھر آن لیا

میں نے محبوب رقیبوں سے چھپا رکھا تھا
پر رقیبان فتن بیز نے پھر آن لیا

اس کہانی کا بھی انجام کوئی بتلاو
ختم بیماری، تو پرہیز نے پھر آن لیا

خالی پیمانہ اگر رہتا تو اچھا ہوتا
رند بے ہوش کو لبریز نے پھر آن لیا

اسپ خاکی سے بچے جنگ میں کچح سانس لیا
موت لکھی تھی، تو شبدیز نے پھر آن لیا

جان چھوٹی بڑی مشکل تھی ضیاء صاحب سے
آن کی آن مِِیں پرویز نے پھر آن لیا

پھر سے موزوں ہے طبیعت تری اب کیا اظہر؟
فکر کی ندرت زرخیز نے پھر آن لیا​
 
آخرش درد بلا خیز نے پھر آن لیا
جس سے بچتے تھے عدو تیز نے پھر آن لیا


سات پردوں میں تو محبوب چھپا رکھا تھا
پر رقیبان فتن بیز نے پھر آن لیا


اس کہانی کا بھی انجام کوئی بتلاو
ختم بیماری، تو پرہیز نے پھر آن لیا

خالی پیمانہ اگر رہتا تو اچھا ہوتا
رند بے ہوش کو لبریز نے پھر آن لیا

اسپ خاکی سے بچے جنگ میں فرصت پائی
موت لکھی تھی، تو شبدیز نے پھر آن لیا

جان چھوٹی بڑی مشکل تھی ضیاء صاحب سے
آن کی آن مِِیں پرویز نے پھر آن لیا

پھر سے موزوں ہے طبیعت تری اب کیا اظہر؟
فکر کی ندرت زرخیز نے پھر آن لیا​
 

الف عین

لائبریرین
آخرش درد بلا خیز نے پھر آن لیا
جس سے بچتے تھے عدو تیز نے پھر آن لیا
غزل میں قوافی بہت عجیب سے ہیں، اور کہیں کہیں گنجلک۔ مطلع میں پہلا مصرع تو واضح ہے، لیکن دوسرے مصرع میں ’عدو تیز‘ سے مراد؟

سات پردوں میں تو محبوب چھپا رکھا تھا
پر رقیبان فتن بیز نے پھر آن لیا
//درست

اس کہانی کا بھی انجام کوئی بتلاو
ختم بیماری، تو پرہیز نے پھر آن لیا
//یہاں ‘پھر آن لیا ‘سے مراد؟ بیماری کے بعد ہی پرہیز ہوتا ہے، کیا بیماری سے پہلے پرہیز ہوتا ہے جو بیماری کے بعد دوبارہ ہو گیا؟؟ اس کے علاوہ ’ختم بیماری‘ سے بھی مفہوم ادا نہیں ہوتا۔

خالی پیمانہ اگر رہتا تو اچھا ہوتا
رند بے ہوش کو لبریز نے پھر آن لیا
// عزیزم، لبریز صفت ہے اسم نہیں۔ ویسے زیادہ بہتر یوں ہو سکتا ہے
جام خالی بھی جو رہتا تو بہت بہتر تھا
رند کو پیالۂ لبریز نے۔۔۔۔

اسپ خاکی سے بچے جنگ میں فرصت پائی
موت لکھی تھی، تو شبدیز نے پھر آن لیا
//یہاں شبدیز بھی بطور اسم استعمال کیا گیا ہے، یہ بھی صفت ہے۔مطلب سیاہ فام ہوتا ہے، کیا تم کچھ اور سمجھتے ہو؟ پہلا مصرع سمجھ میں نہیں آیا۔

جان چھوٹی بڑی مشکل تھی ضیاء صاحب سے
آن کی آن میں پرویز نے پھر آن لیا
//یہ بھی میری سمجھ میں نہیں آیا۔ ضیا اور پرویز کون صاحبان ہیں؟

پھر سے موزوں ہے طبیعت تری اب کیا اظہر؟
فکر کی ندرت زرخیز نے پھر آن لیا
۔۔ پہلے مصرع میں ’اب‘ سے کیا مراد ہے
پھر سے اظہر یہ طبیعت مری موزوں ہوئی ہے
کیسا رہے گا؟
 
آخرش درد بلا خیز نے پھر آن لیا
جس سے بچتے تھے عدو تیز نے پھر آن لیا
غزل میں قوافی بہت عجیب سے ہیں، اور کہیں کہیں گنجلک۔ مطلع میں پہلا مصرع تو واضح ہے، لیکن دوسرے مصرع میں ’عدو تیز‘ سے مراد؟
جناب اُستاد عدو تیز سے مراد ،''چالاک دشمن'' ہے

اس کہانی کا بھی انجام کوئی بتلاو
ختم بیماری، تو پرہیز نے پھر آن لیا
//یہاں ‘پھر آن لیا ‘سے مراد؟ بیماری کے بعد ہی پرہیز ہوتا ہے، کیا بیماری سے پہلے پرہیز ہوتا ہے جو بیماری کے بعد دوبارہ ہو گیا؟؟ اس کے علاوہ ’ختم بیماری‘ سے بھی مفہوم ادا نہیں ہوتا۔
اگر یوں کہا جائے تو؟
اس کہانی کا بھی انجام کوئی بتلاو
بعد بیماری کے پرہیز نے پھر آن لیا


خالی پیمانہ اگر رہتا تو اچھا ہوتا
رند بے ہوش کو لبریز نے پھر آن لیا
// عزیزم، لبریز صفت ہے اسم نہیں۔ ویسے زیادہ بہتر یوں ہو سکتا ہے
جام خالی بھی جو رہتا تو بہت بہتر تھا
رند کو پیالۂ لبریز نے۔۔۔
اگر یوں کہوں اُستاد محترم تو؟
جام خالی بھی جو رہتا تو بہت بہتر تھا
رند مدہوش کو لبریز نے پھر آن لیا


اسپ خاکی سے بچے جنگ میں فرصت پائی
موت لکھی تھی، تو شبدیز نے پھر آن لیا
//یہاں شبدیز بھی بطور اسم استعمال کیا گیا ہے، یہ بھی صفت ہے۔مطلب سیاہ فام ہوتا ہے، کیا تم کچھ اور سمجھتے ہو؟ پہلا مصرع سمجھ میں نہیں آیا۔
جناب استعاراتی طور پر استعمال کیا ہے، کہ زندگی کی دوڑ میں جب تک زندگی ہے، صرف تبھی تک انسان بچ سکتا ہے ورنہ نہیں، یہاں مصرع اولی میں جنگ کے درمیاں خاکی گھوڑے سے بچ کے سانس لیتا ہی ہے تو شبدیز،'' سیاہ رنگ کا بڑا جنگی گھوڑا'' موت بن کر آن لیتا ہے


جان چھوٹی بڑی مشکل تھی ضیاء صاحب سے
آن کی آن میں پرویز نے پھر آن لیا
//یہ بھی میری سمجھ میں نہیں آیا۔ ضیا اور پرویز کون صاحبان ہیں؟
جی یہ پاکستان کی تاریخ کے دو بزعم خود مالک بنے تھے

پھر سے موزوں ہے طبیعت تری اب کیا اظہر؟
فکر کی ندرت زرخیز نے پھر آن لیا
۔۔ پہلے مصرع میں ’اب‘ سے کیا مراد ہے
پھر سے اظہر یہ طبیعت مری موزوں ہوئی ہے
کیسا رہے گا؟
اگر یوں کہوں جناب تو؟
پھر سے گم سوچ میں اظہر ہے دکھائی دیتا
فکر کی ندرت زرخیز نے پھر آن لیا


آخرش درد بلا خیز نے پھر آن لیا
جس سے بچتے تھے عدو تیز نے پھر آن لیا


سات پردوں میں تو محبوب چھپا رکھا تھا
پر رقیبان فتن بیز نے پھر آن لیا


اس کہانی کا بھی انجام کوئی بتلاو
بعد بیماری کے پرہیز نے پھر آن لیا

جام خالی بھی جو رہتا تو بہت بہتر تھا
رند مدہوش کو لبریز نے پھر آن لیا

اسپ خاکی سے بچے جنگ میں فرصت پائی
موت لکھی تھی، تو شبدیز نے پھر آن لیا

جان چھوٹی بڑی مشکل تھی ضیاء صاحب سے
آن کی آن مِِیں پرویز نے پھر آن لیا

پھر سے گم سوچ میں اظہر ہے دکھائی دیتا
فکر کی ندرت زرخیز نے پھر آن لیا​
 

الف عین

لائبریرین
جناب اُستاد عدو تیز سے مراد ،''چالاک دشمن'' ہے
÷÷ نہیں، اس سورت میں عدوئے تیز ہونا تھا، تب بھی بات نہیں بنتی

اگر یوں کہا جائے تو؟
اس کہانی کا بھی انجام کوئی بتلاو
بعد بیماری کے پرہیز نے پھر آن لیا
۔۔یہ بہتر تو ہے، لیکن ’پھر‘ آن لیا میں اس وقوعے کا دوبارہ ہونے کی بات ہے۔ جو سمجھ میں نہیں آتی۔

اگر یوں کہوں اُستاد محترم تو؟
جام خالی بھی جو رہتا تو بہت بہتر تھا
رند مدہوش کو لبریز نے پھر آن لیا
÷÷ محض لبریز نہیں استعمال کیا جا سکتا، اس صفت کے ساتھ کوئی اسم ضروری ہے، جیسے جامِ لبریز، پیالہ لبریز۔۔۔ اب بھی بات نہیں بنتی

جناب استعاراتی طور پر استعمال کیا ہے، کہ زندگی کی دوڑ میں جب تک زندگی ہے، صرف تبھی تک انسان بچ سکتا ہے ورنہ نہیں، یہاں مصرع اولی میں جنگ کے درمیاں خاکی گھوڑے سے بچ کے سانس لیتا ہی ہے تو شبدیز،'' سیاہ رنگ کا بڑا جنگی گھوڑا'' موت بن کر آن لیتا ہے
÷÷ یہ معانی تو جب تم بتاؤ گے تب ہی نکل سکتے ہیں۔ لیکن ان معنوں میں ہی ‘جنگ سے فرصت پائی‘ سے کیا مراد ہے۔ ’محض اسپِ خاکی سے بچے‘ مطلب تو مکمل نہیں نکلتا۔ بہر حال شعر تفہیم سے بعید ہے۔

جی یہ پاکستان کی تاریخ کے دو بزعم خود مالک بنے تھے
چلو سمجھ میں آ گیا، لیکن پہلا مصرع واضح نہیں۔ شاید تمہارا مطلب یہ ہے کہ بڑی مشک سے جان چھوٹی تھی ضیاء الحق صاحب سے، کہ پھر پرویز صاحب آ گئے؟
تب یوں کہا جا سکتا ہے

جان چھوٹی ہی تھی مشکل سے ضیاء صاحب سے

اگر یوں کہوں جناب تو؟
پھر سے گم سوچ میں اظہر ہے دکھائی دیتا
فکر کی ندرت زرخیز نے پھر آن لیا
÷÷÷ رواں نہیں مصرع، یوں کہو
پھر سے اظہر جی کسی سوچ میں گم لگتے ہیں
تو۔۔۔۔؟
 
اگر یوں کہا جائے تو؟
اس کہانی کا بھی انجام کوئی بتلاو
بعد بیماری کے پرہیز نے پھر آن لیا
۔۔یہ بہتر تو ہے، لیکن ’پھر‘ آن لیا میں اس وقوعے کا دوبارہ ہونے کی بات ہے۔ جو سمجھ میں نہیں آتی۔
اگر اسے یوں کہا جائے تو؟
ہم نے بیماری سے بچنے کو ہی پرہیز کیا
بعد بیماری کے پرہیز نے پھر آن لیا


اگر یوں کہوں اُستاد محترم تو؟
جام خالی بھی جو رہتا تو بہت بہتر تھا
رند مدہوش کو لبریز نے پھر آن لیا
÷÷ محض لبریز نہیں استعمال کیا جا سکتا، اس صفت کے ساتھ کوئی اسم ضروری ہے، جیسے جامِ لبریز، پیالہ لبریز۔۔۔ اب بھی بات نہیں بنتی
یوں دیکھیے تو؟
جام خالی بھی جو رہتا تو بہت بہتر تھا
رند کو پیالہء لبریز نے پحر آن لیا


جناب استعاراتی طور پر استعمال کیا ہے، کہ زندگی کی دوڑ میں جب تک زندگی ہے، صرف تبھی تک انسان بچ سکتا ہے ورنہ نہیں، یہاں مصرع اولی میں جنگ کے درمیاں خاکی گھوڑے سے بچ کے سانس لیتا ہی ہے تو شبدیز،'' سیاہ رنگ کا بڑا جنگی گھوڑا'' موت بن کر آن لیتا ہے
÷÷ یہ معانی تو جب تم بتاؤ گے تب ہی نکل سکتے ہیں۔ لیکن ان معنوں میں ہی ‘جنگ سے فرصت پائی‘ سے کیا مراد ہے۔ ’محض اسپِ خاکی سے بچے‘ مطلب تو مکمل نہیں نکلتا۔ بہر حال شعر تفہیم سے بعید ہے۔
جی اب دیکھیے ذرا،
وار پر وار کئے جاتا رہا شاہ سوار
ہم کہ سنبھلے بھی نہ، شبدیز نے پھر آن لیا
یا پھریوں دیکھیے
اسپ اسود سے بچے دن میں مگر ظلمت شب
اتنی تاریک تھی شبدیز نے پھر آن لیا
جو بھی آُپ کو بہتر لگے

گویا اب صورت کچھ یوں بنی




آخرش درد بلا خیز نے پھر آن لیا
جس سے بچتے تھے عدو تیز نے پھر آن لیا

سات پردوں میں تو محبوب چھپا رکھا تھا
پر رقیبان فتن بیز نے پھر آن لیا

ہم نے بیماری سے بچنے کو ہی پرہیز کیا
بعد بیماری کے پرہیز نے پھر آن لیا

جام خالی بھی جو رہتا تو بہت بہتر تھا
رند کو پیالہء لبریز نے پحر آن لیا

اسپ اسود سے بچے دن میں مگر ظلمت شب
اتنی تاریک تھی شبدیز نے پھر آن لیا

جان چھوٹی ہی تھی مشکل سے ضیاء صاحب سے
آن کی آن مِِیں پرویز نے پھر آن لیا

پھر سے اظہر جی کسی سوچ میں گم لگتے ہیں
فکر کی ندرت زرخیز نے پھر آن لیا

دو نئے اشعار

ہم نے پردیس کے انگریز سے لی آزادی
اپنے ہی دیس کے انگریز نے پھر آن لیا

خون پر خون ہوا، دن بھی تھا تاریک بہت
شب کی تاریکیء خوںریز نے پھر آن لیا

 
آخرش درد بلا خیز نے پھر آن لیا
جس سے بچتے تھے عدو تیز نے پھر آن لیا

سات پردوں میں تو محبوب چھپا رکھا تھا
پر رقیبان فتن بیز نے پھر آن لیا

اس کہانی کا بھی انجام کوئی بتلاو
ختم بیماری، تو پرہیز نے پھر آن لیا

خالی پیمانہ اگر رہتا تو اچھا ہوتا
رند کو پیالہء لبریز نے پھر آن لیا

خون پر خون ہوا، ظلمت شب کے اُس پار
دن میں تاریکیء خوں ریز نے پھر آن لیا


جان چھوٹی ہی تھی مشکل سے ضیاء صاحب سے
آن کی آن مِِیں پرویز نے پھر آن لیا

پھر سے موزوں ہے طبیعت تری اب کیا اظہر؟
فکر کی ندرت زرخیز نے پھر آن لیا​
 
Top