آگ کا دریا سے اقتباس

سیما علی

لائبریرین
محترمہ قراۃ العین حیدر کی تخلیق
’’آگ کا دریا‘‘ کے چند کردار ایسے ہیں جو ناول کے آغاز سے اس کے اختتام عہد بہ عہد کسی نہ کسی شخصیت کے طور پر سامنے آتے ہیں اور دُہرائے جاتے ہیں۔

(ص۔ ۱۸۶)

’’خدا حافظ۔‘‘ وہ دروازے میں ٹھٹکا رہا۔

’’ہما رے شہر کا دستور ہے، دعا دیتے وقت کہتے ہیں، سوائے غمِ حسینؓ کے خدا کوئی غم نہ دے۔ یہ دعا میں تم کو نہیں دے سکتی۔ تم حسینؓ کا غم بھی نہیں جانتے، تم تو جانتے ہی نہیں غم کہتے کس کو ہیں۔‘‘

’’سنو، چمپا۔‘‘ نیلمبر نے دھیرے سے کہا، ’’تمھاری زندگی اتنی رنگین ہے، بہت جلد تم مجھے بھول جاؤ گی، کس چکر میں پڑگئیں۔ میرا اور تمھارا کیا ساتھ ہے۔‘‘

’’ہاں میرا اور تمھارا کیا ساتھ ہے بھلا، تم نے آج تک مجھے اپنا ہاتھ بھی نہیں چھونے دیا۔ ہمارے یہاں کے ہندو تو اتنی چھوت چھات نہیں کرتے۔‘‘

’’سنو۔‘‘ اس نے چمپا کو پھر سمجھا نے کی سعی کی۔ ’’تم کو میں اس لیے پسند ہوں کہ میں ان سب لوگوں سے مختلف ہوں جو تمھارے ماحول سے تعلق رکھتے ہیں۔ انوکھی چیز ہر ایک کو بھاتی ہے۔‘‘

’’کیا تمھارے دیس میں لڑکیاں نہیں ہوتیں؟‘‘ اس نے سادگی سے سوال کیا۔

نیلمبر کو ہنسی آگئی۔ ’’ہوتی کیوں نہیں، مگر تمھاری جیسی نہیں۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔‘‘

’’اللہ— کس قدر طنطنہ ہے، معلوم ہوتا ہے راجا جھاؤ لال کے جانشین آپ ہی ہیں۔‘‘ چمپا نے ہنسنے کی کو شش کی۔ اندھیرا تیزی سے پھیلنے لگا۔ نیچے سڑک پر سے ایک بارات گزر رہی تھی۔ شعلوں کی روشنی بالا خانے کی کھڑکیوں پر آکر پڑی۔ اس روشنی میں چمپا کا کامدانی کا ڈوپٹہ جھک جھک کرنے لگا۔ نیچے ڈومنیاں سوہا گاتی جارہی تھیں۔ چمپا کھڑکی میں آکر بارات دیکھنے لگی۔ ’’جانے کس سہاگن کی بارات ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ نیلمبر نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ وہ کہہ رہی تھی:

’’اس کی مانگ میں سیندور ہوگا، پیروں میں مہندی، اور ناک میں سہاگ کی نتھ۔‘‘ اس نے آہستہ سے اپنی مانگ کو چھوا جس میں افشاں چنی تھی، لیکن جو سیندور سے عاری تھی۔

’’اب یہ پھر ناٹک کھیل رہی ہے۔‘‘ گوتم نے پریشان ہوکر سوچا۔

’’آدمی اس قدر کا کٹھور ہوتا ہے۔‘‘ چمپا نے کہا۔

’’ہمیشہ سے عورت اور مرد ایک دوسرے پریہ الزام رکھتے آئے ہیں، یہ تکرار بھی فضول ہے۔‘‘

(ص۔ ۱۸۷) ’’تم ابھی جارہے ہو۔‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’صبح ہوتے ہوتے لکھنؤ سے بہت دور نکل چکے ہوگے؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’یہ دوہا سنا ہے:

سجن سکارے جائیں گے اور نین مریں گے روئے

بدھنا ایسی رین کرو کی بھور کبھی نہ ہوئے

نیلمبر کھڑکی سے نیچے دیکھنے لگا۔ شہر کا شہر کسی میلے کے لیے ایک سمت کو رواں تھا۔ دنیا کس قدر رنگ رنگ جگہ تھی۔ اس دنیا کو بھرتریؔ ہری نے رنگ بھوم کہا ہے۔ اس رنگ بھوم پر ایک بے معنی ناٹک بھی کھیلا جارہا تھا۔ اندھیرا چھانے لگا تھا۔ اس کی شکرم نیچے کھڑی تھی۔ ’’بھاگو میاں، بھاگو یہاں سے جلدی۔ کلکتے کا راستہ کھوٹا ہوتا ہے۔ کلکتے چلو۔ تمھارا ٹھکانا وہیں ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ تمھارے قدم لڑکھڑا رہے ہیں۔‘‘ (نیلمبر کے اندر کی آواز) پھر وہ جلدی سے اپنا کاغذات کا بقچہ سنبھال کر تیزی سے زینے سے اترا۔ اس نے ایک بار بھی پلٹ کر نہ دیکھا اور سیدھا شکرم میں پہنچ کر دم لیا۔
 
Top