آپ کا مطالعے کا شوق کیسے پروان چڑھا؟

رانا

محفلین
اکثر محفلین کو مطالعے کا کچھ نہ کچھ شغف یا شوق ضرور ہے۔ کسی کو یہ ورثہ میں ملتا ہے تو کسی کو ویسے ہی خدا نے یہ شوق ودیعت کیا ہوتا ہے۔ بعض کی زندگی میں کچھ اور وجوہات ہوتی ہیں مطالعہ کتب کی طرف رجحان پیدا ہونے کی۔ ہر کسی کا مزاج آگے پھر اس شوق کو مختلف راستے دکھاتا ہے۔ کسی کی دلچسپی ہمہ گیر موضوعات میں ہے تو کوئی خاص موضوعات سے شغف رکھتا ہے تو کسی کو کہانیاں اور ناول وغیرہ پڑھنا پسند ہے۔

محفلین سے گذارش ہے کہ یہاں سب اپنے اس شوق کی ابتداء کے بارے میں کچھ بیان کریں کہ کیسے ان میں مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ اور کیسے یہ سفر آگے بڑھا۔ وغیرہ۔
 

رانا

محفلین
حسب روایت صاحب لڑی کی حیثیت سے پہلا پتھر خاکسار کی طرف سے۔:) خاکسار کو یاد ہے کہ بچپن میں جب ہوش سنبھالا تو گھر میں شوکیس کے ایک شیلف میں بچوں کے ایک رسالے تشحیذالاذھان کے شمارے رکھے ہوتے تھے۔ اس میں بعض چھوٹی چھوٹی کہانیاں اور لطائف کا بھی ایک صفحہ مختص تھا۔ ان سے دلچسپی پیدا ہوئی اور گھر میں رکھے سارے شمارے چاٹ گئے۔ اسی دور میں اسکول میں جب جاتے تھے تو اسکول کے قریب ایک دکان تھی جس میں آٹھ دس صفحات پر مشتمل کہانیاں آٹھ آنے فی کہانی کے حساب سے ملا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں بچوں کے ناول عمرو عیار اور ٹارزن وغیرہ بھی بے شمار پڑھے۔ ہمارا جیب خرچ جو بمشکل ٹافیوں کے لئے یا پھر پاکستانی ڈراموں کے نام پر بنی چھالیہ کو ہی سپورٹ کرسکتا تھا وہ آہستہ آہستہ غیر محسوس طور سے ان کہانیوں پر خرچ ہونے لگا۔ اسکول میں اور بھی کچھ دوست تھے جن کو کہانیوں کا شوق تھا۔ پھر ہم ان سے کہانیوں کا تبادلہ کرنے لگے۔ اسی تبادلے میں ایک دن ایک کلاس فیلو ایسی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کا ایک پورا بنڈل اپنے گھر سے لایا۔ ہم تو دیکھ کر للچا گئے کہ اتنی کہانیاں تو اس کہانیوں والی دکان پر بھی نہ ہوں گی۔ اس نے کمال فراخدلی سے پڑھنے کو مستعار دے دیں۔ اب جب گھر لاکر پڑھنا شروع کیں تو اتنا بڑا بنڈل ایک دن میں تو ختم ہونے سے رہا۔ لہذٰا ابو کی نظروں میں آگئے کہ یہ اسکول کی بجائے ہر وقت کہانیوں میں کھویا رہتا ہے۔ لہٰذا ابو کی ان کہانیوں سے پھر وہ دشمنی شروع ہوئی کہ جو کالج لائف تک ختم نہ ہوئی۔ اب وقت آگیا تھا کہ کہانیوں کو ان کی اصل جگہ یعنی اسکول کی کتابوں کے اندر چھپاکر پڑھنا شروع کردیا جائے۔ :)

اس شوق نے پھر نونہال تک رسائی دی لیکن نونہال بھی ابو کی دشمنی کی بھینٹ چڑھنا شروع ہوا تو اسے بھی نصابی کتابوں میں ہی پناہ ملی۔ ان اسکول کی کتابوں نے شفیق ماں کی طرح پھر انسپکٹر جمشید اور انسپکٹر کامران مرزا جن سے دشمنوں کو کہیں پناہ نہیں ملتی تھی انہیں بھی فراخدلی سے پناہ گاہ مہیا کی۔ غالبا پانچویں جماعت میں ہمارے اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے اسکول کے ایک چھوٹے سے کمرے کو لائبریری بنایا اور اس میں اپنے گھر کی تمام کتابیں جمع کردیں۔ تمام طلبا کو اجازت تھی کہ اس لائبریری جو ایک بیڈ روم سے بڑی نہ تھی اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ ہمارے تو وارے نیارے ہوگئے کیونکہ وہاں کہانیاں تو اتنی نہیں تھیں لیکن دیگر کتب کا جو چسکا پڑا تو وہ بھی کہانیوں سے کم نہ تھیں۔ ہماری قسمت اچھی تھی کہ پہلی ہی کتاب جو ہمارے ہاتھ لگی وہ اردو میں انسانی تاریخ پر بہت ہی آسان الفاظ میں تصاویر کے ساتھ تھی۔ اور غالبا بچوں کے لئے ہی لکھی گئی تھی۔ آج بھی یاد ہے کہ اس میں نوکیلے پتھر کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے انسان کے پہلے شکار بارہ سنگھے سے شروع کرکے مصر کے دریائے نیل کے کنارے قدیم مصریوں سے ہوتے ہوئے ارسطو اور سقراط سے لاکر قائداعظم پر وہ کتاب ختم ہوئی تھی۔ وہ کتاب آج بھی زہن کی یادوں میں موجود ہے اور اگر کہیں پڑھنے کو ملی تو بہت شوق سے پڑھی جائے گی۔ ہمیں تو وہ کسی کہانی سے کم نہ لگی۔ بس پھر پوری لائبریری کی کتابیں کھنگالنا شروع کیں لیکن پانچویں جماعت کی عمر میں زیادہ تر کتابیں سر کے اوپر سے گزر گئیں۔ ایک کتاب یاد ہے کہ انگریزی میں تھی جس میں انسان کے ارتقا کو دکھایا گیا تھا اور اس ارتقائی سفر میں ظاہر ہے کہ کپڑے ایجاد نہ ہوئے تھے لہذٰا ہم سارے ہم جماعت اساتذہ کی نظروں سے چھپ چھپ کر اس کتاب کو دیکھا کرتے اور علمی تبصرے فرماتے۔:)

پھر چھٹی جماعت سے اشتیاق احمد کی انسپکٹر جمشید اور انسپکٹر کامران کے ناول پڑھنے کی لت پڑی۔ یہ ناول بہت شوق سے پڑھتے رہے۔اسی دورمیں آنکھ مچولی اور تعلیم و تربیت سے تعارف ہوا۔ تعلیم و تربیت تو بالکل اچھا نہ لگا لیکن آنکھ مچولی نے بہت متاثر کیا۔ اس کے ہر چھ ماہ بعد چھپنے والے خاص نمبر تو اس وقت کمال کی چیز لگتے تھے۔آٹھویں جماعت میں عمران سیریز سے تعارف ہوا اور انٹر تک چلا۔ عمران سیریز نے پڑھنے کی رفتار کو پر لگادئیے تھے اور ایک نشہ سالگا دیا تھا۔ انٹر کے دوران اپنے کالج کی لائبریری سے بھی استفادہ کیا۔ مشکوٰۃ کی شروع کی چند جلدیں کالج لائبریری میں ہی مطالعہ کی تھیں۔ پھرتیموریہ لائبریری کی ممبر شپ حاصل کی لیکن گھرسے دور ہونے کی وجہ سے باقاعدہ استفادہ نہ کرسکے۔ لیکن آتش شوق تو بھڑک چکی تھی۔ کہیں سے بھی کچھ بھی ملتا پڑھنے کی کوشش کرڈالتے۔ کچھ عرصے بعد ایسے ہی پرانی کتابیں بیچنے والے ٹھیلوں پر سائنس ڈائجسٹ کے کچھ شمارے نظر پڑے۔ پھر ان کی ایسی لت لگی کہ پرانے تو ڈھونڈا ہی کرتے لیکن ہر ماہ جیب خرچ سے نیا بھی خرید کر پڑھنے لگے۔ سائنس ڈائجسٹ کے ایک شمارے میں یاد ہے کہ ایک مضمون جغرافیہ کے متعلق کسی کا لکھا ہوا تھا۔ بہت لمبا مضمون تھا کہ لیکن جغرافیہ سے دلچسپی پیدا کرگیا۔ اسی سے ہمیں پتہ لگا کہ آپ کے پاس صرف ایک ’’ڈی‘‘ ہو (ہمیں ڈی کا اصل نام ہمیشہ بھول جاتا ہے) تو آپ ایک دھاگہ باندھ کر یہ پتہ کرسکتے ہیں کہ آپ دنیا کے کس ملک میں ہیں۔

انٹر کے دوران جب کالج سے چھٹیاں تھیں تو ابو کے ساتھ کام پر جاتے۔ ایسے ہی ایک کام کے دوران ان کو پہاڑ گنج کے ایک بنگلے پر کام ملا۔ بنگلے والے صاحب جماعت اسلامی کے تھے اور ان کے ایک کمرے میں ڈھیروں کتب موجود تھیں۔ جو زیادہ تر مولانا مودودی صاحب کی تھیں۔ بس پھر ہم نے ابو کا ہاتھ کیا بٹاناتھا ہر تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہم کتابوں والے کمرے میں پائے جاتے۔ ابو بھی یہ سوچ کرکے چلو کتابیں ہی پڑھتا ہے اس لئے کچھ نہ کہتے۔ وہاں ہم نے دوسری جنگ عظیم سے متعلق فرار کی کہانیاں پڑھیں۔ کشف المحجوب وہیں پڑھی اور مولانا مودودی صاحب کی تحاریر سے بھی وہیں تعارف ہوا۔ بی ایس سی کے بعد پہلی جاب ایک بہت ہی اچھے جاننے والے صاحب کے پاس کی۔ ان کا ذاتی ٹیکسٹائل امپورٹ ایکسپورٹ مڈل مین فرم کا کام تھا جس کا چھوٹا سا دفتر انہوں نے گھر میں کھولا ہوا تھا۔ وہ ہماری پہلی جاب تھی۔ فیکس مشین ان کی اسٹڈی میں رکھی تھی جس کے لئے وہاں جانا پڑتا تھا۔ ان کی اسٹڈی میں بہت سی کتب موجود تھیں لہذٰا دفتری کام ختم کرکے ان کی اسٹڈی میں گھس جاتے اور پھر ہم ہوتے اور کتابیں۔ پروین شاکر کے تمام مجوعے وہیں بیٹھ کر ختم کئے تھے۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ مطالعے کا شوق کسی ایک خاص موضوع تک محدود نہ ہوا بلکہ اکثر طرح کی کتاب بشرط فرصت پڑھ لیتے۔ ماسوائے چند خشک موضوعات۔ لیکن لائبریری کا گھر سے دور ہونا اور گھر کے حالات کی وجہ سے تعلیم کے ساتھ ساتھ ابو کا بھی کام پر ہاتھ بٹانا تو اس بنا پر کالج لائف کے بعد مطالعہ کم ہوتا گیا۔

لیکن شوق ایک بار لگ جائے تو پھر یہ نتیجہ ضرور ہوتا ہے کہ پھر بندے کی وقت گزاری کا ایک اچھا بہترین ذریعہ کتاب ہی ہوتی ہے۔ لہذا ٹوٹا پھوٹا یہ شوق کسی نہ کسی طرح آج بھی قائم ہے البتہ اب کتب پڑھنے کی رفتار اور تعداد کم ہوگئی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top