آنکھیں

پہلے کب تھا سرور آنکھوں کا
اب ہوا ہے شعور آنکھوں کا

حسن ہے کائنات کا اِن سے
حق بجانب غرور آنکھوں کا

حسنِ فطرت بھی اِن کے دم سے ہے
حسنِ قدرت ظہور آنکھوں کا

نام ہے ان کا شاہکاروں میں
شور ہے دُور دُور آنکھوں کا

جام کو مات دے گیا ہے خمار
نیند سے چور چور آنکھوں کا

دل کی کچھ بھی خطا نہیں راجا
سب کا سب ہے قصور آنکھوں کا
 
امجد علی راجا صاحب ، آپ کے حکم کی تعمیل کر دی گئی ہے۔
مابدولت کے حکم سے انکار کا انجام داروغہء زندان کی قید سے بڑھ کر بھی ہو سکتا ہے، تاریخ کے پنے پلٹ کر دیکھو، جب ایک گستاخ لونڈی نے مابدولت کے رحم کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے شیخو کو محبت کے دام میں جکڑ لیا اور ایک ادنہ سی کنیز کی خاطر شیخو نے سلطنت ہندوستان کے مقدس تخت و تاج کو پگھلا کر ایک رقاصہ کے پیروں کی پازیب بنانا چاہا، اور مابدولت کے فرمان سے انکار نے اسے زندان کی دیواروں میں گم کردیا۔
کاش اس نے بھی آپ کی طرح ہمارے حکم کی پابندی کی ہوتی تو آج تاریخ ہمیں "محبت کا دشمن" کہنے کی بجائے "لو گرو" کہہ رہی ہوتی۔
اہلِ دربار، اپنی اپنی جیب سے 10،10 اشرفیاں نکال کر ساجد صاحب کے حضور پیش کی جائیں۔۔۔۔ تعمیل ہو۔۔۔۔
 
Top