حسرت موہانی آشنا ہو کر نظر نا آشنا کرنے لگے۔ حسرت موہانی

آشنا ہو کر نظر نا آشنا کرنے لگے
ہم سے کیا دیکھا کہ تم پاس حیا کرنے لگے

رشک آیا ہے مجھے کیا کیا جب ان کے روبرو
مدعیٔ بیباک عرض مدعا کرنے لگے

حلقۂ اغیار میں بھی پا کے ان کو گرم لطف
ہم لب حسرت سے شور مرحبا کرنے لگے

اور تو کچھ بھی نہ ہم سے اس کے آگے بن پڑا
حسن خلق یار کی مدح و ثنا کرنے لگے

دل ربائی کا بھی کچھ کچھ ڈھب انہیں آنے لگا
بات مطلب کی اشاروں میں ادا کرنے لگے

کون کہتا ہے کہ ہم ہیں مائل ترک وفا
آپ ناحق اپنے دل کو بد مزا کرنے لگے

بھول کر حکم خدا یاد بتاں رہنے لگی
کیا تمہیں کرنا تھا حسرتؔ آہ کیا کرنے لگے

حسرت موہانی
 
Top