سید شہزاد ناصر
محفلین
آسودہ شوق کا ساماں نہ کر سکے
جلوے مری نگاہ پہ احساں نہ کر سکے
جلوے مری نگاہ پہ احساں نہ کر سکے
ہم خاک اڑاتے پھرتے ہیں بازار مصر میں
رعنائی خیال کو ارزاں نہ کر سکے
رعنائی خیال کو ارزاں نہ کر سکے
آیا نہ اس کی شان تغافل میں کوئی فرق
ہم اعتبار گردش دوراں نہ کر سکے
ہم اعتبار گردش دوراں نہ کر سکے
تم نے مسرتوں کے خزانے لٹا دیئے
لیکن علاج تنگئی داماں نہ کر سکے
لیکن علاج تنگئی داماں نہ کر سکے
آنکھوں سے ٹوٹتے رہے تارے تمام رات
لیکن کسی کو زینت داماں نہ کر سکے
لیکن کسی کو زینت داماں نہ کر سکے
شائستہ نشاط ملامت کہاں تھے ہم
اچھا ہوا کہ چاک گریباں نہ کر سکے
اچھا ہوا کہ چاک گریباں نہ کر سکے
اک والہانہ شان سے بڑھتے چلے گئے
ہم امتیاز ساحل و طوفاں نہ کر سکے
ہم امتیاز ساحل و طوفاں نہ کر سکے
ہم جان رنگ و بو ہیں گلستاں ہمیں سے ہے
یہ اور بات خود کو نمایاں نہ کر سکے
یہ اور بات خود کو نمایاں نہ کر سکے
کچھ اس طرح گذر گیا طوفان رنگ وبو
غنچے بہار سے کوئی پیماں نہ کر سکے‘
غنچے بہار سے کوئی پیماں نہ کر سکے‘
ہر صبح جاگتا ہوں نئی آرزو کے ساتھ
غم مجھ کو زندگی سے گریزاں نہ کر سکے
غم مجھ کو زندگی سے گریزاں نہ کر سکے
یاروں نے دوستی کے تقاضے بدل دیئے
لیکن میری وفا کو پشیماں نہ کر سکے
لیکن میری وفا کو پشیماں نہ کر سکے
قابل فراق دوست میں دل بجھ کے رہ گیا
جینے کے حوصلے بھی فروزاں نہ کر سکے
جینے کے حوصلے بھی فروزاں نہ کر سکے