آزادی اظہار رائے پہ لعنت.... اردو کالم عبدالرزاق قادری

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
آپ نے جو کہنا تھا کہا آپ کی ڈیوٹی تھی۔ لیکن اب ان شاءاللہ نہ کوئی امریکہ شمریکہ رہے گا اور نہ ہی کوئی ان کا ملعون آئین اور قانون
 

باباجی

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آزادی رائے کے حوالے سے آپ کی دليل، اور جس واقعے اور مثال کی بنياد پر آپ نے اپنے جذبات کا اظہار کيا ہے وہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ امريکہ ميں رائج آزادی رائے کے اظہار سے متعلق قوانين سے آپ قطعی نابلد اور اس اصول کی بنيادی اساس کے حوالے سے کم علمی کا شکار ہيں۔ آپ يہ بحث کر رہے ہيں کہ امريکی حکومت نے آزادی رائے کے اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی ايک سينير سفارت کار کے خلاف قابل اعتراض کارٹون کی اشاعت پر نقطہ چينی کی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ يہ بات درست ہو۔ ليکن کيا امريکی حکومت نے اخبار يا کارٹون کے ليے ذمہ دار افراد کے خلاف کسی قسم کی پابندی، قدغن يا تاديبی کاروائ کا مطالبہ کيا تھا؟

يہ حق‍يقت کہ آپ انٹرنيٹ پر بآسانی بے شمار ويب سائٹس پر وہ کارٹون ديکھ سکتے ہيں، واضح کرتا ہے کہ امريکی حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کی تنقيد سے قطع نظر مذکورہ اخبار اور کارٹون تخليق کرنے والوں کے خلاف اپنے نظريے کے پرچار کی پاداش ميں کسی بھی قسم کی کوئ قانونی کاروائ نہيں کی گئ – باوجود اس کے کہ اس کارٹون کو کتنا ہی قابل نفرت يا شرانگيز گردانا گيا۔

قانونی نقطہ نظر سے اخبار نے کسی جرم کا ارتکاب نہيں کيا تھا اور کارٹون تخليق کرنے والے کو اس بات کا اختيار تھا کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرے بالکل اسی طرح جيسے امريکہ ميں بے شمار صحافی، آرٹسٹ اور لکھاری اپنے پورے کيرئير کے دوران تسلسل کے ساتھ اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کرتے رہتے ہيں۔

ليکن امريکی حکومت کی جانب سے شائع شدہ مواد يا کارٹون پر تنقيد ان کے دائرہ اختيار سے تجاوز کی مثال نہيں ہے بالکل اسی طرح جيسے امريکی صدر اور وزير خارجہ ہيلری کلنٹن نے سخت ترين الفاظ ميں اس فلم کی مذمت کی تھی جس کی وجہ سے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے تھے۔

آزادی رائے کے جس اصول کے تحت کارٹون بنانے والے نے اپنے حق کا استعمال کيا تھا وہی حقوق امريکی حکومت سميت دوسروں کو بھی اس بات کی اجازت ديتے ہیں کہ وہ اس رائے، سوچ اور نقطہ نظر سميت اس انداز کو بھی ہدف تنقيد بنا سکيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
ہولوکاسٹ پر بات کرنا کیوں منع ہے وہاں ؟؟؟؟؟
 

Fawad -

محفلین
ہولوکاسٹ پر بات کرنا کیوں منع ہے وہاں ؟؟؟؟؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


فورمز پر بہت سے رائے دہندگان نے مجھ سے ہالوکاسٹ کے حوالے سے براہراست سوال کيے ہيں اور اس بنياد پر امريکی حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے جو ان کے نزديک امريکہ ميں مختلف مذاہب کے حوالے سے امريکی حکومت کے مبينہ دوہرے معيار کو ثابت کرتا ہے۔ ہالوکاسٹ کے حوالے سے سادہ اور براہراست جواب يہ ہے کہ امريکہ ميں ہالوکاسٹ سميت کسی بھی سياسی يا مذہبی معاملے پر سوالات اٹھانے يا رائے زنی کرنے کی قانونی اجازت ہے۔ يورپ کے کچھ ممالک ايسے ضرور ہيں جہاں مروجہ قوانين کے تحت ہالوکاسٹ کے حوالے سے رائے پر قدغن ہے۔

ليکن ميں واضح کر دوں کہ ان قوانين کا اطلاق امريکہ ميں نہيں ہوتا۔

يہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہيے کہ امريکی حکومت نہ تو مغربی ممالک ميں رائج قوانين کے لیے ذمہ دار ہے اور نہ اس ضمن میں امريکہ کو مورد الزام ٹھہرايا جا سکتا ہے۔ ايسے بہت سے مغربی اور غير مسلم ممالک ہيں جہاں پر قانونی فريم ورک، آئينی اصول اور آزادی رائے کے حوالے سے قوانين امريکی معاشرے ميں متعين کردہ بنيادی جمہوری اصولوں سے متصادم ہيں۔

امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور بے شمار نجی تنظيميں ہر سال ايسی بے شمار رپورٹس مرتب کرتی ہيں جن ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے عالمی برادری ميں شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

جہاں تک اس عمومی تاثر کا تعلق ہے کہ امريکہ ميں يہوديوں يا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف مواد کی اجازت نہيں ہے تو حقائق اس کے بالکل منافی ہيں۔

يہ ايک مسلمہ حقيقت ہے کہ امريکہ کے اندر ايسے کئ افراد اور تنظيميں موجود ہيں جو عوامی سطح پر ہالوکاسٹ کی حقيقت کے حوالے سے کھلم کھلا سوالات بھی اٹھاتے رہتے ہيں اور اس بات پر بھی بضد ہيں کہ اس قسم کا کوئ واقعہ سرے سے ہوا ہی نہيں تھا۔

اس ضمن ميں امريکہ کے اندر اينٹی سميٹک سوچ کی حامل تنظيموں کی مکمل تاريخ ہے جن ميں سے کچھ تو بذريعہ تشدد بھی سفيد رنگت يا آرئين وائٹ سپريمسی کا پرچار کرتی ہيں۔ ان ميں کچھ چيدہ نام يہ ہيں

کرسچن آئڈينٹٹی چرچز
آرئين وائٹ ریذزٹينس
کو کلس کلين
امريکنز نازيز
گينگز آف سکن ہيڈز

اسی طرح کئ قدامت پسند چرچز جيسے کہ ويسٹ برو بيپٹسٹ چرچ بھی اينٹی سميٹک پيغامات کی ترويج اور تشريح کرتے ہيں۔ اکثر اينٹی سميٹک گروہوں کے اراکين اپنے سر منڈھوا کر باقاعدہ نازی سے متعلق نشانات، ٹيٹوز اور پيغامات جيسے کہ

سواسٹیکاس، ايس ايس اور
"ہيل ہٹلر" بھی نماياں کرتے دکھائ ديتے رہتے ہيں۔ امريکا بھر ميں اينٹی سميٹک گروہ مارچ بھی کرتے ہيں اور اپنے پيغام کو بھی کھلم کھلا سب کے سامنے بيان کرتے ہيں۔

سال 1979 ميں کيلی فورنيا ميں انسٹی ٹيوٹ فار ہالوکاسٹ ريوو (آئ – ايچ – آر) کے نام سے ايک ادارہ بھی قائم کيا گيا تھا جس کا مقصد ہی يہ تھا کہ اس سوچ کو مقبول عام کيا جائے کہ ہالوکاسٹ محض ايک فراڈ تھا۔ اس ادارے کے روح رواں ولس کاسٹرو نے اپنی پوری زندگی اسی بات کے ليے وقف کر رکھی تھی کہ عوامی سطح پر ہالوکاسٹ کے حوالے سے تسليم شدہ تاريخ کو چيلنج کیا جائے۔

اسی طرح 80 کی دہائ ميں کچھ اور گروہ جيسے کہ پوسی کامیٹيٹس پورے امريکہ ميں اينٹی سميٹک پيغامات کی تشہير کے ليے جانے جاتے تھے۔

سال 1987 ميں آئ – ايچ – آر کے سابقہ ميڈيا ڈائريکٹر بريڈلی آر اسمتھ نے کميٹی فار اوپن ڈيبيٹ آن ہالوکاسٹ (سی – او – ڈی – او – ايچ) تشکيل دی۔ امريکہ ميں سی – او – ڈی – او – ايچ نے باقاعدہ اخبارات، خصوصی طور پر کالجوں کے اخبارات ميں ميں اشتہارات بھی جاری کرنے کی کوششيں کی ہيں جن ميں يہ سوال اٹھايا گيا تھا کہ آيا ہالوکاسٹ کا واقعہ کبھی پيش بھی آيا تھا کہ نہيں۔ حاليہ عرصے ميں بريڈلی آر اسمتھ نے ہالوکاست سے انکار سے متعلق اپنی سوچ کی ترويج کے ليے ديگر طريقوں کا استعمال بھی شروع کيا ہے۔

ميں آپ کو يقين دلاتا ہوں کہ امريکہ ميں ايسی بے شمار کتابيں ، ويڈيوز اور ديگر مواد بآسانی دستياب ہے جن ميں لکھاريوں اور مبصرين نے ہالوکاسٹ کے حوالے سے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کيا ہے۔

اس ضمن میں کچھ مثاليں

http://www.amazon.com/s/ref=nb_sb_noss?url=search-alias%3Daps&field-keywords=The+Hoax+of+the+Twentieth+Century


http://www.amazon.com/The-Great-Holocaust-Trial-Landmark/dp/0970378467


http://www.amazon.com/Did-Six-Million-Really-Die/dp/1471004643


ا امريکہ بھر ميں ايسی کئ مثاليں موجود ہيں جب کسی مخصوص بيان، فلم، ٹی وی شو، کارٹون، کتاب يا کسی بھی اور ميڈيم کے ذريعے دانستہ يا غير دانستہ اظہار رائے کے نتيجے میں معاشرے کے کسی گروہ نے تضحيک محسوس کی اور اپنے ردعمل کا اظہار کيا۔ اسی ضمن ميں ايک مثال حاليہ فلم "اينجلز اور ڈيمنز" کی بھی دی جا سکتی ہے جس کی ريليز پر عيسائيوں کی ايک بڑی تعداد نے شديد منفی ردعمل کا اظہار کيا تھا۔

يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ صرف مسلمان ہی آزادی رائے کے حق کے قانون کی آڑ ميں نشانہ بنائے جاتے ہيں۔

ليکن يہ مطالبہ يا توقع غير منطقی اور امريکی آئين کے خلاف ہے کہ ايسے ہر اقدام کے بعد امريکی حکومت ايسے افراد کی گرفتاری شروع کر دے جو کسی بھی میڈيم کے ذريعے اپنی رائے کے اظہار کے حق کو استعمال کريں۔ اس ضمن ميں سب سے موثر اور تعميری ردعمل يہ ہے کہ معاشرے کی متنوع کميونٹيز کے مابين ڈائيلاگ اور بحث و مباحثے کے ذريعے بہتر شعور اور آگاہی کے رجحان کے فروغ ديا جائے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

باباجی

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


فورمز پر بہت سے رائے دہندگان نے مجھ سے ہالوکاسٹ کے حوالے سے براہراست سوال کيے ہيں اور اس بنياد پر امريکی حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے جو ان کے نزديک امريکہ ميں مختلف مذاہب کے حوالے سے امريکی حکومت کے مبينہ دوہرے معيار کو ثابت کرتا ہے۔ ہالوکاسٹ کے حوالے سے سادہ اور براہراست جواب يہ ہے کہ امريکہ ميں ہالوکاسٹ سميت کسی بھی سياسی يا مذہبی معاملے پر سوالات اٹھانے يا رائے زنی کرنے کی قانونی اجازت ہے۔ يورپ کے کچھ ممالک ايسے ضرور ہيں جہاں مروجہ قوانين کے تحت ہالوکاسٹ کے حوالے سے رائے پر قدغن ہے۔

ليکن ميں واضح کر دوں کہ ان قوانين کا اطلاق امريکہ ميں نہيں ہوتا۔

يہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہيے کہ امريکی حکومت نہ تو مغربی ممالک ميں رائج قوانين کے لیے ذمہ دار ہے اور نہ اس ضمن میں امريکہ کو مورد الزام ٹھہرايا جا سکتا ہے۔ ايسے بہت سے مغربی اور غير مسلم ممالک ہيں جہاں پر قانونی فريم ورک، آئينی اصول اور آزادی رائے کے حوالے سے قوانين امريکی معاشرے ميں متعين کردہ بنيادی جمہوری اصولوں سے متصادم ہيں۔

امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور بے شمار نجی تنظيميں ہر سال ايسی بے شمار رپورٹس مرتب کرتی ہيں جن ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے عالمی برادری ميں شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

جہاں تک اس عمومی تاثر کا تعلق ہے کہ امريکہ ميں يہوديوں يا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف مواد کی اجازت نہيں ہے تو حقائق اس کے بالکل منافی ہيں۔

يہ ايک مسلمہ حقيقت ہے کہ امريکہ کے اندر ايسے کئ افراد اور تنظيميں موجود ہيں جو عوامی سطح پر ہالوکاسٹ کی حقيقت کے حوالے سے کھلم کھلا سوالات بھی اٹھاتے رہتے ہيں اور اس بات پر بھی بضد ہيں کہ اس قسم کا کوئ واقعہ سرے سے ہوا ہی نہيں تھا۔

اس ضمن ميں امريکہ کے اندر اينٹی سميٹک سوچ کی حامل تنظيموں کی مکمل تاريخ ہے جن ميں سے کچھ تو بذريعہ تشدد بھی سفيد رنگت يا آرئين وائٹ سپريمسی کا پرچار کرتی ہيں۔ ان ميں کچھ چيدہ نام يہ ہيں

کرسچن آئڈينٹٹی چرچز
آرئين وائٹ ریذزٹينس
کو کلس کلين
امريکنز نازيز
گينگز آف سکن ہيڈز

اسی طرح کئ قدامت پسند چرچز جيسے کہ ويسٹ برو بيپٹسٹ چرچ بھی اينٹی سميٹک پيغامات کی ترويج اور تشريح کرتے ہيں۔ اکثر اينٹی سميٹک گروہوں کے اراکين اپنے سر منڈھوا کر باقاعدہ نازی سے متعلق نشانات، ٹيٹوز اور پيغامات جيسے کہ
سواسٹیکاس، ايس ايس اور "ہيل ہٹلر" بھی نماياں کرتے دکھائ ديتے رہتے ہيں۔ امريکا بھر ميں اينٹی سميٹک گروہ مارچ بھی کرتے ہيں اور اپنے پيغام کو بھی کھلم کھلا سب کے سامنے بيان کرتے ہيں۔

سال 1979 ميں کيلی فورنيا ميں انسٹی ٹيوٹ فار ہالوکاسٹ ريوو (آئ – ايچ – آر) کے نام سے ايک ادارہ بھی قائم کيا گيا تھا جس کا مقصد ہی يہ تھا کہ اس سوچ کو مقبول عام کيا جائے کہ ہالوکاسٹ محض ايک فراڈ تھا۔ اس ادارے کے روح رواں ولس کاسٹرو نے اپنی پوری زندگی اسی بات کے ليے وقف کر رکھی تھی کہ عوامی سطح پر ہالوکاسٹ کے حوالے سے تسليم شدہ تاريخ کو چيلنج کیا جائے۔

اسی طرح 80 کی دہائ ميں کچھ اور گروہ جيسے کہ پوسی کامیٹيٹس پورے امريکہ ميں اينٹی سميٹک پيغامات کی تشہير کے ليے جانے جاتے تھے۔

سال 1987 ميں آئ – ايچ – آر کے سابقہ ميڈيا ڈائريکٹر بريڈلی آر اسمتھ نے کميٹی فار اوپن ڈيبيٹ آن ہالوکاسٹ (سی – او – ڈی – او – ايچ) تشکيل دی۔ امريکہ ميں سی – او – ڈی – او – ايچ نے باقاعدہ اخبارات، خصوصی طور پر کالجوں کے اخبارات ميں ميں اشتہارات بھی جاری کرنے کی کوششيں کی ہيں جن ميں يہ سوال اٹھايا گيا تھا کہ آيا ہالوکاسٹ کا واقعہ کبھی پيش بھی آيا تھا کہ نہيں۔ حاليہ عرصے ميں بريڈلی آر اسمتھ نے ہالوکاست سے انکار سے متعلق اپنی سوچ کی ترويج کے ليے ديگر طريقوں کا استعمال بھی شروع کيا ہے۔

ميں آپ کو يقين دلاتا ہوں کہ امريکہ ميں ايسی بے شمار کتابيں ، ويڈيوز اور ديگر مواد بآسانی دستياب ہے جن ميں لکھاريوں اور مبصرين نے ہالوکاسٹ کے حوالے سے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کيا ہے۔

اس ضمن میں کچھ مثاليں

http://www.amazon.com/s/ref=nb_sb_noss?url=search-alias%3Daps&field-keywords=The+Hoax+of+the+Twentieth+Century


http://www.amazon.com/The-Great-Holocaust-Trial-Landmark/dp/0970378467


http://www.amazon.com/Did-Six-Million-Really-Die/dp/1471004643


ا امريکہ بھر ميں ايسی کئ مثاليں موجود ہيں جب کسی مخصوص بيان، فلم، ٹی وی شو، کارٹون، کتاب يا کسی بھی اور ميڈيم کے ذريعے دانستہ يا غير دانستہ اظہار رائے کے نتيجے میں معاشرے کے کسی گروہ نے تضحيک محسوس کی اور اپنے ردعمل کا اظہار کيا۔ اسی ضمن ميں ايک مثال حاليہ فلم "اينجلز اور ڈيمنز" کی بھی دی جا سکتی ہے جس کی ريليز پر عيسائيوں کی ايک بڑی تعداد نے شديد منفی ردعمل کا اظہار کيا تھا۔

يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ صرف مسلمان ہی آزادی رائے کے حق کے قانون کی آڑ ميں نشانہ بنائے جاتے ہيں۔

ليکن يہ مطالبہ يا توقع غير منطقی اور امريکی آئين کے خلاف ہے کہ ايسے ہر اقدام کے بعد امريکی حکومت ايسے افراد کی گرفتاری شروع کر دے جو کسی بھی میڈيم کے ذريعے اپنی رائے کے اظہار کے حق کو استعمال کريں۔ اس ضمن ميں سب سے موثر اور تعميری ردعمل يہ ہے کہ معاشرے کی متنوع کميونٹيز کے مابين ڈائيلاگ اور بحث و مباحثے کے ذريعے بہتر شعور اور آگاہی کے رجحان کے فروغ ديا جائے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu

بہت شکریہ
بہت مفید معلومات فراہم کی آپ نے
 
Top