آرمی چیف توسیع کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف نظر ثانی دائر کر دی گئی

فرقان احمد

محفلین
اصولی موقف پر نہ کبھی کوئی اعتراض تھا، ہے نہ ہوگا۔ اعتراض صرف یہ تھا کہ جنرل ایوب اور جنرل ضیا کی کابینہ سے اگنے والے سیاست دان اور سیاسی جماعتیں آج کس حیثیت سے سویلین بالادستی کا ڈھول بجا رہی ہیں؟
اگر اس حوالہ سے واقعی پوری سنجیدگی سے کام کرنا مقصود ہے تو بالکل نئے سرے سے صرف سویلین بالادستی کے ایجنڈے کے نام پر سیاسی تحریک کا آغاز کرتے۔ اسکی بجائے بار بار کے آزمودہ اور اسٹیبلیشیہ کے چلے ہوئے کارتوسوں کو سویلین بالادستی کا ہیرو بنا کر پیش کرنا قوم کو گمراہ کرنے کے مترادف تھا۔ انہوں نے اپنے لفافوں کے ساتھ مل کر قوم کا صرف وقت ضائع کیا۔ یہی ڈیل جو اب سو چھتر سو پیاز کھانے کے بعد فوج سے کی ہے، پہلے کر لیتے تو ملک اس قدر شدید ہیجان کا شکار نہ ہوتا۔
نئے سرے سے یہ آغاز کون کرے! اس طرف جو بھی قدم بڑھائے، سر آنکھوں پر! ہم بخوشی 'گمراہ' ہونے کو تیار ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
نئے سرے سے یہ آغاز کون کرے! اس طرف جو بھی قدم بڑھائے، سر آنکھوں پر! ہم بخوشی 'گمراہ' ہونے کو تیار ہیں۔
اسی نکتہ پر تحریک انصاف کا دیگر جماعتوں سے اصولی اختلاف ہے۔ ہمارا موقف اصولی ہے کہ جو سیاست دان اور سیاسی جماعتیں ماضی میں جرنیلوں سے فائدے حاصل کر چکی ہیں وہ اب کس حیثیت سے ان کے خلاف انقلاب لائیں گی؟ اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ تین سال سویلین بالا دستی کا ڈرامہ کرنے والے نام نہاد جمہوریے ایک آرمی چیف کی ایکسٹینشن پر ڈھیر ہو گئے۔
آپ کیلئے شاید یہ نئی بات ہوگی۔ ہم تو ان دونوں جماعتوں اور اس سے منسلکہ مفاد پرست سیاست دانوں کے کرتوت ۱۹۷۰ سے دیکھ رہے ہیں۔ ادھر تم ادھر ہم، میں ضیا الحق کا مشن پورا کروں گا، زرداری کا پیٹ پھاڑ کر پیسہ واپس لاؤں گا، خلائی مخلوق نے واٹس ایپ کے ذریعہ مجھے نااہل کر دیا، عمران خان سلیکٹڈ وزیر اعظم ہے وغیرہ وغیرہ۔ آج اپنے ذاتی مفاد میں یہ سب ڈرامہ بازیاں ختم اور اصلی بیانیہ سامنے آگیا ہے۔ جو ہمیشہ سے تھا کہ مشکل کے وقت جرنیلوں کے پاؤں پڑنے ہیں اور اقتدار میں آکر جرنیلوں کا گلا پکڑنا ہے :)
 

جاسم محمد

محفلین
نئے سرے سے یہ آغاز کون کرے!
یہ جو سوشل میڈیا پر انگنت لبرل لفافے سویلین بالا دستی کی نظریاتی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کو مشورہ دیں کہ بجائے ن لیگ، پی پی پی یا کسی اور اسٹیبلشڈ جماعت پر تکیہ کرنے کے اپنی خود کی بالکل نئی سیاسی جماعت بنائیں۔ جس کا صرف ایک ون پوائنٹ ایجنڈا ہو کہ وہ اقتدار میں آکر ملک میں سویلین بالا دستی قائم کریں گے۔ یہی کام شیخ مجیب نے ۱۹۷۰ میں کیا تھا۔ ان تمام شور مچاتے لبرل لفافوں میں سے کیا کوئی آج ایک بھی شیخ مجیب جیسا نہیں بن سکتا؟
 

جاسم محمد

محفلین
ہم بخوشی 'گمراہ' ہونے کو تیار ہیں۔
اس وقت عمران خان اقتدار میں جنرل باجوہ، جنرل آصف غفور، جنرل فیض حمید وغیرہ کی حمایت کی وجہ سے ہیں۔ اس ٹاپ کمانڈ میں تبدیلی کے بعد شاید وہ نئے آنے والے جرنیلوں کی حمایت حاصل نہ کر پائیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کو موجودہ جرنیلوں سے ہی ان بن کے بعد اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔
اس کے ردعمل میں جب وہ روایتی سویلین بالا دستی کی تحریک چلائیں گے تو انصافین سمیت پوری قوم ان پر ہنسی ٹھٹھہ کرے گی۔ لوگ کہیں گے کہ جرنیلوں سے اقتدار لیتے وقت آئین و قانون یاد نہیں آیا۔ اور اب انہوں نے فارغ کر دیا ہے تو سویلین بالا دستی کا بخار چڑھ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انصافین نواز شریف، زرداری، بلاول، مریم نواز وغیرہ کے فوج مخالف بیانات کو سنجیدہ نہیں لیتے تھے۔ کیونکہ ہمیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اپنا مفاد نظر آنے پر یہ انہی جرنیلوں کے آگے بالکل لیٹ جائیں گے۔ جن کو آج تھو تھو کر رہے ہیں۔ اور پھر بالآخر وہی ہوا جس کا انتظار تھا :)
 

جاسم محمد

محفلین
سویلین بالا دستی کے تاریخی یوٹرن کا بہترین جواز بلاول زرداری نے پیش کیا۔ موصوف فرماتے ہیں کہ اداروں نے پارلیمان کی بالادستی قبول کرتے ہوئے ان کے حق میں مطلوبہ قانونی ترمیم لانے کا فرمان جاری کیا۔ جسے ہم نام نہاد جمہوریوں نے بخوشی قبول کر لیا :)

آج ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے کہ یہ قوم صرف ڈنڈے اور اپنے ذاتی مفادات کی پیر ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سلیم لفافی ن لیگ کا سیاسی ورکر ہے، پتا نہیں صحافت میں کیا کر رہا ہے۔۔۔

04 جنوری ، 2020
419_015249_reporter.JPG
سلیم صافی

’نوازشریف کو کہا تھا حکمرانی چاہتے ہیں تو مشرف کو جانے دیں‘
211508_5983622_updates.jpg

فائل فوٹو

2013کے انتخابات کے چند روز بعد میاں نواز شریف نے رائےونڈ میں اپنے گھر پر لنچ کے لئے مدعو کیا، وہ افغانستان اور طالبان جیسے ایشوز پر گپ شپ کرنا چاہ رہے تھے۔

نیشنل سیکورٹی کے معاملات ڈسکس ہورہے تھے تو دورانِ گفتگو گزارش کی کہ وہ جنرل پرویز مشرف کو چھیڑنے سے گریز کریں، دلیل میں نے یہ دی کہ چونکہ بارہ تیرہ سال فوج کے ساتھ اُن کے تعلقات خراب رہے اِس لئے اُنہیں اِس خلیج کو پُر کرنے پر توجہ دینا چاہئے جبکہ پرویز مشرف کے خلاف کارروائی اِس خلیج کو دوبارہ وسیع کر سکتی ہے۔

اُنہوں نے بحث کی تو عرض کیا کہ جب تک وہ (میاں نواز شریف) اٹک جیل میں رہے تب تک پرویز مشرف حکمرانی کو انجوائے نہیں کر سکے تھے لیکن اُن کو جدہ بھیجنے کے بعد ہی اُنہوں نے سکون سے حکمرانی پر توجہ دی اور اِس کو انجوائے کرنے لگے۔

اس لئے اگر وہ (میاں صاحب) سکون سے حکمرانی کرنا چاہتے ہیں تو اِس کے لئے ضروری ہے کہ پرویز مشرف کو جانے دیا جائے، بہر حال اقتدار پر فائز لوگ کب ہم جیسے طالب علموں کی سنتے ہیں۔

چنانچہ چند نام نہاد انقلابیوں اور خوشامدیوں کے ایما پر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ قائم کر لیا گیا، اِس اقدام کے خلاف اس وقت میرے کالم ریکارڈ پر ہیں، اسی طرح میرا یہ بھی موقف تھا کہ اگر مقدمہ قائم کرنا ہے تو پھر صرف پرویز مشرف کیوں اور وہ جج اور سیاستدان کیوں نہیں جو سہولت کار بنے؟

بہر حال مقدمہ قائم ہو گیا، کچھ عرصہ بعد میاں نواز شریف نے محترم بھائی میجر (ر) محمد عامر اوراس طالب علم کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر مشاورت کے لئے بلایا تھا، فواد حسن فواد بھی اس گفتگو کے گواہ ہیں، اُس دن اتفاقاً جنرل پرویز مشرف کو عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔

دورانِ ملاقات وزیراعظم سے عرض کیا کہ اُنہوں نے یہ پرویز مشرف والا تنازع کیوں مول لیا، وہ حق میں جبکہ میجر عامر اور یہ طالب علم مخالفت میں دلائل دیتے رہے۔ ایک موقع پر میاں نواز شریف نے طنز کرتے ہوئے میجر عامر سے کہا کہ میجر صاحب! فوجی آپ ہیں لیکن آپ سے زیادہ سلیم کو جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ہمدردی ہے۔

میں نے جواباً عرض کیا کہ وزیراعظم صاحب! میں جنرل مشرف کی نہیں بلکہ ملک اور نظام کی ہمدردی میں آپ سے یہ گزارش کررہا ہوں، آپ اس کے بجائے ڈیلیوری پر توجہ دیں۔ نہ آپ طیب اردوان ہیں اور نہ آپ کی پارٹی ان کی پارٹی جیسی ہے۔

بہر حال میاں صاحب اپنے خوشامدی ٹولے کے ورغلانے پر طیب اردوان بننے کی کوشش کرنے لگے، چنانچہ ردِعمل میں عمران خان اور طاہر القادری کو میدان میں اُتار کر اُن کی حکومت کے خلاف دھرنے دلوائے گئے، نتیجتاً جو ہاتھ میاں صاحب گریبان میں لے کر گئے تھے، وہی ہاتھ قدموں میں لے گئے لیکن ان کی معافی قبول نہ ہوئی اور دوسرے فریق کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اس شخص کا ذہن صاف نہیں ہو سکتا۔

چنانچہ اِس کے بعد ایک سلسلہ شروع ہوگیا، میڈیا کو اُن کے خلاف لگا دیا گیا، اُنہیں مودی کا یار باور کرایا گیا، لاک ڈاؤن سے ان کو مزید کمزور کردیا گیا جبکہ پانامہ کو اُن کے خلاف اِس طرح استعمال کیا گیا کہ اُن کو وزارتِ عظمیٰ سے بھی محروم ہونا پڑا۔

اِس دوران پھر شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان ان کو سمجھاتے رہے کہ سزا کے بعد ہمیں اپنی حیثیت کو دیکھ کر معاملات سدھار دینا چاہئیں لیکن اب اُن پر ایک طرف تو انتقام کا جذبہ غالب آگیا تھا اور دوسری طرف وہی خوشامدی اُن کو باور کراتے رہے کہ بس اُن کے جی ٹی روڈ پر نکلنے کی دیر ہے اور پاکستان راتوں رات ترکی بن جائے گا۔

ایک خوشامدی نے اُنہیں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بھی تھما دیا جبکہ مریم نواز صاحبہ نام نہاد انقلابی خوشامدیوں کے ورغلانے میں اپنے والد سے بھی زیادہ انقلابی بن گئیں۔ نتیجتاً مسلم لیگ (ن) کو انتخابات میں مزید ٹھکانے لگا دیا گیا اور اس انتقام میں ہی عمران خان وزیراعظم بن گئے۔

میاں صاحب اور مریم صاحبہ کو نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں بلکہ انہیں کلثوم نواز صاحبہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر جیل جانے کے لئے پاکستان آنے کا ناقابلِ تلافی صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا۔

درمیان میں چند ماہ کے لئے چپ کا روزہ رکھ کر میاں صاحب اور مریم صاحبہ نے شہباز شریف کے کہنے پر دوبارہ سیاسی شریف بننے کی مشق کی لیکن کچھ عرصہ بعد دوبارہ انقلابی بننے لگے ۔ چنانچہ ان کی اس حرکت کی وجہ سے شاہد خاقان عباسی، رانا ثنااللہ اور خواجہ سعد رفیق جیسے اُن کے مخلص ساتھیوں کی آزمائشیں مزید بڑھ گئیں اور قید و بند کا سلسلہ شہباز شریف اور اُن کے بچوں تک بھی دراز ہوا۔

اِس دوران فریق ثانی کو بھی ضرورت پڑ گئی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو بھی احساس ہو گیا کہ انقلابیت کا یہ بھاری پتھر وہ زیادہ دیر نہیں اٹھا سکتے۔ چنانچہ گزشتہ سال کے اواخر میں شہباز شریف اور فریق ثانی کے معاملات طے پائے۔ اب کی بار جو کچھ ہو رہا تھا اُس میں میاں نواز شریف اور مریم نواز صاحبہ بھی پوری طرح شریک تھے جبکہ خواجہ آصف جیسے انقلابی نہ صرف آن بورڈ تھے بلکہ خود معاملات کو یہاں تک لانے میں اُنہوں نے پوری کوششیں بھی کیں۔

اِسی اسکیم کے تحت شہباز شریف لندن میں ہیں جبکہ مریم نواز غائب اور خاموش ہیں۔ پرویز مشرف کے خلاف عدالت کے فیصلے پر خاموشی اور اب آرمی ایکٹ میں ترمیم پر حمایت دراصل اس مفاہمت کی کڑیاں ہیں جو ملک کے وسیع ترمفاد میں شریف فیملی کے ساتھ ہو چکی ہے۔

چھوٹے اور بڑے شریف ہلکے پھلکے اختلاف کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ دفن کرنے میں رسوائی ضرور تاہم فائدہ بہت ہے جبکہ اس سے چمٹے رہنے میں آزمائش ہی آزمائش ہے۔

ظاہری طور پر دونوں کی سوچ اور اپروچ کا اختلاف نظر آتا ہے لیکن میاں شہباز شریف نواز شریف کو نہیں چھوڑ سکتے جبکہ شہباز شریف جو کچھ کررہے ہیں اُس میں اُنہیں میاں نواز شریف کی تائید حاصل ہے۔ حقیقی اختلاف اگر کوئی ہے تو وہ شہباز شریف اور نواز شریف کی اولاد میں سیاسی جانشینی کے معاملے پر ہے باقی ملک کے وسیع تر مفاد میں مسلم لیگ (ن) نے مفاہمت اور تابعداری کی جو پالیسی اپنالی ہے اس پر میاں شہباز شریف، میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کے مابین وسیع تر مفاہمت پائی جاتی ہے۔

تاہم سوال یہ ہے کہ جب یہی پیازکھانے تھے تو پھر سو جوتے کھانے کی کیا ضرورت تھی؟۔ اسی طرح شریف فیملی کے وسیع ترمفاد میں لئے گئے اِس یوٹرن سے پہلے کیا ضروری نہیں تھا کہ مریم نواز شریف، اپنے انقلابی اتالیقوں کو ساتھ لے کر پہلے چوہدری نثار علی خان کے گھر جاکر اُن سے معافی مانگتیں اور پھر معذرت کے لئے شاہد خاقان عباسی، رانا ثنااللہ، حنیف عباسی اور خواجہ سعد رفیق وغیرہ کے پاس چلی جاتیں۔

شاید اسے کہتے ہیں بڑے بےآبرو ہوکر بیانیے کو ہم بدلے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سیاسی رومان کا المناک انجام
خورشید ندیم

یہ خوش گمانیوں کا موسم تھا جو رخصت ہوا۔ شاید ہمیشہ کے لیے۔
نواز شریف اور عمران خان سے دو رومان وابستہ ہوئے۔ ایک عوام کی حاکمیت کا، دوسرا روایتی سیاست سے نجات کا۔ دونوں کو حقیقت پسندی کی سنگلاخ زمین پر ننگے پاؤں چلنا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں آبلہ پائی کا شکار ہو گئے۔ نئے سال کا آغاز ہوا تو دونوں نے حقیقت پسندی کے سامنے ہتھیار رکھ دیے۔ آرمی ایکٹ میں تبدیلی کا مجوزہ قانون اس کے سوا کچھ نہیں کہ دونوں کا زمینی حقائق کے روبرو اعترافِ عجز ہے۔ خان صاحب کے بارے میں تو کوئی ابہام نہیں تھا کہ وہ 'سٹیٹس کو‘ ہی کی نمائندگی کر رہے تھے۔ خوش گمانی نواز شریف صاحب کے بارے میں تھی۔
نواز شریف نے اقتدار کی سیاست سے اقدار کی سیاست کی طرف پیش قدمی کی ہے۔ 1999ء کے بعد، ہم اس کے آثار دیکھ سکتے ہیں۔ کبھی سست روی سے، کبھی شتابی کے ساتھ۔ کبھی ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے۔ کبھی دو قدم آگے اور ایک قدم پیچھے، ان کا سفر جاری رہا۔ بحیثیت مجموعی انہوں نے خیر کی طرف قدم بڑھایا۔
مثال کے طور پر ان سے کرپشن کی جو داستانیں منسوب ہیں، ان کا تعلق 1980-90ء کی دہائیوں سے ہے۔ اس کے بعد تو داستان نگار بھی خاموش ہو گئے۔ تب ہی ان کو نااہل قرار دینے کے لیے 'اقامہ‘ کا سہارا لینا پڑا۔ ان کے معاملے میں ریاست کے تمام اداروں نے مل کر، جس طرح زمین آسمان کو کھنگال مارا، لازم تھا کہ کوئی ایک آدھ، سچی جھوٹی کہانی ہی گھڑ لی جاتی مگر یہ بھی ممکن نہ ہو سکا۔
شعوری سطح پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ وہ روایتی مذہب پسندی سے نکلے اور روشن خیالی کی طرف آئے۔ انہوں نے پاکستان کی نظری ساکھ میں موجود تضادات کو سمجھا اور یہ کوشش کی کہ اسے جدید قومی ریاست کے تصور سے ہم آہنگ بنائیں۔ یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ انہوں نے معاشی طور پر پاکستان کو توانا بنانے کے لیے ایک قابلِ عمل پالیسی ترتیب دی جس کے شواہد جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں شہباز شریف صاحب کا تعاون میسر رہا جن کی انتظامی صلاحیتوںکا سارا ملک معترف ہے، الا یہ کہ کوئی سامنے رکھی چیزوں کے وجود کا انکارکر دے۔
نواز شریف صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ عوام کی سیاسی توقیر کے لیے آواز بندکرنا ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ آسان کام نہیں۔ اس میں جان بھی جا سکتی ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے دو سال ایک معرکہ لڑا۔ عوامی حاکمیت کا علم سب سے پہلے پیپلز پارٹی نے اٹھایا تھا۔ اب لازم تھا کہ پنجاب سے اٹھنے والا کوئی راہنما بھی یہ ہمت کرتا اور یوں یہ ایک قومی بیانیہ بنتا۔ نواز شریف نے ہمت کی اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسے ایک قومی بیانیہ بنا دیا۔ جب یہ قومی بیانیہ بن گیا تو نواز شریف صاحب سے بیماری اور ن لیگ سے سیاسی حقیقت پسندی لپٹ گئی۔
عمران خان کے بارے میں میری رائے ہے کہ انہوں نے اقدار کی سیاست سے اقتدار کی سیاست کی طرف پیش قدمی کی ہے۔ یوں یہ خیر سے دوری کا سفر تھا۔ وہ روایتی سیاست کے خلاف کھڑے ہوئے۔ انہوں نے ایک نئے سیاسی کلچر کی بات کی۔ انہوں نے بطور کھلاڑی اپنی مقبولیت کو پہلے سماجی اور پھر سیاسی تبدیلی کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ اس ملک کا وہ خام ذہن جو سیاست سے ہمیشہ لاتعلق رہا، ان سے وابستہ ہوتا گیا اور یوں وہ تبدیلی کی علامت بنتے گئے۔
جب انہوں نے مقبولیت کی ایک خاص بلندی کو چھو لیا تومقتدر حلقوں نے انہیں گود لے لیا۔ پھر ایک مسئلہ افتادِ طبع کا بھی تھا۔ پے در پے سیاسی ناکامیوں سے انہوں نے سیکھا کہ اقتدار تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ وہی جس پر سب چلتے رہے ہیں۔ 2013ء کی انتخابی ناکامی کے بعد، وہ اس کے پوری طرح قائل ہو گئے۔ مزید یہ کہ نواز شریف نے جس طرح ایک قومی مفاہمت کی فضا پیدا کرتے ہوئے یہ چاہا کہ اپنی تمام توانائیاں معاشی تعمیر پر صرف کر دی جائیں، عمران خان صاحب کو اپنا مستقبل مزید مخدوش دکھائی دیا۔ انہیں لگا کہ نواز شریف کو ووٹ سے شکست دینا فی الحال ممکن نہیں۔ ان کی عمر ایسی نہیں تھی کہ لمبا عرصہ انتظار کرتے۔
اس موڑ پر خان صاحب اور مقتدرحلقوں میں ایک فیصلہ کن حکمتِ عملی پر اتفاقِ رائے ہو گیا۔ 'لندن پلان‘ کے تحت، چوہدری شجاعت اور طاہرالقادری کو بھی شریک کر لیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ 2014ء کا دھرنا، اسی حکمتِ عملی کا حصہ تھا۔یہ وہ سال ہے جب عمران خان رومانویت سے نکل کر اقتدار کے روایتی کھلاڑی بن گئے۔اقتدار میں آنے کے بعد بھی،وہ کوئی ایک ایسا قدم نہ اٹھا سکے جس کا تعلق تبدیلی یا رومان سے تھا۔لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ بعد از انتخابات، احتساب کا سارا عمل دراصل اس پلان کا حصہ تھا جس کاآغاز2014 ء کے دھرنے سے ہوا۔
نیا سال،اس سیاست کے باضابطہ خاتمے کا آغاز ہے۔عمران خان نے مان لیا کہ سیاست میںدوسروں کے وجود کو تسلیم کرناپڑتا ہے۔نیب آرڈیننس میں تبدیلی ،زبانِ حال سے اسی کا اعلان تھا۔ اب تو انہوں نے زبانِ قال سے بھی اعتراف کر لیا۔ 2014 ء کا سال، خان صاحب سے وابستہ توقعات کے خاتمے کا سال تھا لیکن خوش گمانیاں جاتے جاتے جاتی ہیں۔2020ء تک پہنچتے پہنچتے،کوئی ذی شعور شاید ہی باقی ہوجوکسی خوش گمانی میں مبتلا ہو۔سیاسی نابالغوں کی بات البتہ دوسری ہے۔
نوازشریف صاحب کواندازہ ہو چلاہے کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر نون لیگ کے موقف نے، ان توقعات کو شدید نقصان پہنچا یا جوعوامی حاکمیت کے علم برداروں نے ان سے وابستہ کر لی تھی۔بالخصوص وہ لوگ جن کا تعلق چھوٹے صوبوں سے ہے اور وہ ان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے آخری وقت پرمداخلت کی اور پارلیمنٹ کے وقار کوکم ازکم علامتی طور پر بچاناچاہا۔یوں یہ قانون جو ایک ہی دن میںقومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونا تھا،اب ایک باضابطہ کارروائی کے بعد منظور ہو سکے گا۔
معاملہ جو بھی ہو،عام آدمی اب اسی نتیجے تک پہنچا ہے کہ ''تیری سرکارمیں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے‘‘ تحریکِ انصاف کے بارے میں تو کوئی ابہام نہیں تھا، اب نون لیگ کے بارے میں بھی یہی رائے مستحکم ہو رہی ہے۔یہاں بھی نوازشریف کے بیانیے پر شہبازشریف صاحب کا بیانیہ غالب آچکا۔آج سب ایک ہی دربار کی خوشنودی کے طلب گار ہیں۔
تو کیا پاکستان میں تبدیلی اور عوامی حاکمیت کے خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتے؟میراجواب تواثبات میں ہے۔مجھے کسی جوہری تبدیلی کے آثار دکھائی نہیں دیتے ، الا یہ کہ سماجی تبدیلی کی کوئی بڑی تحریک اٹھے۔اس تحریک کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل ِنو ہو اورریاستی اداروں کی قیادت ان ہاتھوں کو منتقل ہو جائے جوسماج اور اجتماعیت کا عصری شعور رکھتے ہوں۔
یہ ایک طرح سے خوش گمانیوں کی رخصتی کا موسم ہے۔انسانی تاریخ میںسیاست ہمیشہ زمینی حقائق کے تابع رہی ہے۔سیاست کو بدلنے کے لیے زمینی حقائق کو بدلنا ضروری ہے۔نوازشریف نے عوامی حاکمیت کے تصور کو زندہ کیا اور عمران خان نے تبدیلی کے۔آج دونوں سیاسی ضروریات کے سامنے سرافگندہ ہوگئے۔
خدشات تو بہت ہیں مگر نون لیگ کی حقیقت پسندی سے چھوٹے صوبوں،بالخصوص بلوچستان میں جو مایوسی پیدا ہوگی،وہ کسی طرح وفاق کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ بات ان لوگوں کو نہیںسمجھائی نہیں جا سکتی جن کے ہاتھ میں اقتدار کی باگ ہے اور جو اس خام خیالی میں مبتلاہیں کہ یہ عوام نہیں،ریاستی ادارے ہیں جو وفاق کو متحد رکھتے ہیں۔رومان کی سیاست ختم ہو ئی لیکن رومان کو زندہ رہناچاہیے۔رومان کو حقیقت بنایا جا سکتا ہے مگر اسی وقت جب کچھ لوگ اپنے عہد کے بجائے تاریخ میں زندہ رہنے کا ارادہ کرلیں۔یہ ایک صبر آزما کام ہے۔یہ ان کے بس کی بات نہیں جن کا ہدف ہی وزیراعظم بنناہو۔
اگرآج میرے پاس انتخاب کاحق ہو تاتو میں اقتدار کی سیاست کوکئی سال موضوع نہ بناتا۔مگر کیا کیجیے کہ کالم نگار کو بھی ،حقیقت پسند ہو نا پڑتا ہے کہ صحافت سیاست سے جدا ہو کر زندہ نہیں رہ سکتی۔
 

جاسم محمد

محفلین
آرمی ایکٹ پر حکومت اپوزیشن اتحاد: جمہوری جدوجہد کا سیاہ باب
03/01/2020 سید مجاہد علی


تحریک انصاف کی حکومت نئے پاکستان میں پرانے پاکستان کی اینٹوں کے ساتھ ایک ایسی عمارت تعمیر کرنے کا کارنامہ سرانجام دے رہی ہے جس کے بعد فوج کے تسلط کو جمہوریت اور آرمی چیف کی مرضی و منشا کو قومی مفاد قرار دینا ہی دراصل حب الوطنی اور جمہوریت کی سرفرازی کہا جائے گا۔ یہ فرمان پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد پاکستانی عوام کا مقدر کہلائے گا۔ سوال تو صرف اتنا ہے کہ جوتوں میں دال بانٹتی اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتی سیاسی پارٹیوں کی مبلغ جمہوری استعداد، اگر صرف ایک آرمی چیف کی توسیع کے سوال پر سربسجود ہونا ہی ہے تو یہ لوگ، عوام کے حقوق اور ان کی آزادی کی بات کس منہ سے کر سکتے ہیں۔

جمعہ کو آرمی ایکٹ میں جو ترمیم کی جائے گی وہ وزیر اعظم کے اختیار، سپریم کورٹ کا اپنی ’حدود سے تجاوز‘ یا پارلیمنٹ کی بالادستی کا معاملہ نہیں ہے۔ حکمران جماعت کا ’معتوب‘ اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مل کر اتفاق رائے سے آرمی ایکٹ میں ترمیم کرنے کا مقصد صرف یہ ہوگا کہ فوج صرف اسی وقت ’بااختیار‘ نہیں ہوتی جب اس کا کوئی جرنیل زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے کر خود اپنے آپ کو ہی توسیع پر توسیع دے کر قوم پر احسان عظیم کرنے کا کارنامہ سرانجام دیتا ہے۔ ملک میں اگر سیاسی و جمہوری حکومت بھی کام کر رہی ہو اور پارلیمنٹ میں ایسی اپوزیشن جماعتیں موجود ہوں جو اس حکومت کو ’سیلیکٹڈ‘ اور دھاندلی شدہ انتخاب کی پیداوار کہنے پر اصرار کرتی ہوں۔ اس صورت میں بھی کوئی شمشیر بردار اگر اپنے کسی نامکمل خواب کی تعبیر یا ذاتی خواہش کی تکمیل کے لئے مقررہ مدت سے زیادہ فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں رکھنے کی ضرورت محسوس کرے گا تو ملک کی سب سیاسی جماعتیں سر کے بل اس خواہش کو پورا کرنے پر آمادہ ہوں گی۔ ملک کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں نے گزشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران قومی مفاد، سیاسی ہم آہنگی یا قوم کو انتشار سے بچانے کے ’مقدس‘ فریضہ کی انجام دہی کے نام پر عوامی مفادات کے خلاف جو گٹھ جوڑ کیا ہے، وہ اس ملک کی جمہوری جد و جہد میں سیاہ باب کے طور پر لکھا اور پڑھا جائے گا۔

یہ دعویٰ کرنا کہ معاملہ صرف ایک فرد کے عہدے کی مدت میں توسیع کا تھا یا یہ کہ فوج کے بارے میں فیصلے کرتے ہوئے پارٹی سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ دینا چاہئے، دراصل خود کو دھوکہ دینے اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ اس وقت ملک میں جمہوری اختیار اور پارلیمنٹ کی خود مختاری کا معاملہ دراصل بنیادی حیثیت و اہمیت رکھتا ہے۔ مسلم لیگ نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے کے ذریعے وقت کی اس ضرورت کو نمایاں کیا اور پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری ’سیلکٹڈ ‘ وزیر اعظم کا الزام لگاتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ معاملہ عمران خان کے طرز عمل یا تحریک انصاف حکومت کے نا مناسب فیصلوں اور ناکامیوں سے زیادہ جمہوری اختیار پر عسکری تسلط کی بابت ہے۔ صد افسوس جب ان دعوؤں کے امتحان کا وقت آیا تو مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سچائی کی ایک آنچ کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی نہ کرسکیں۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم منظور کرنے کی ’سازش‘ میں شامل ہونے کے بعد یہ دونوں بڑی پارٹیاں یہ کہنے کی جرات نہیں کرسکتیں کہ وہ خود تحریک انصاف سے زیادہ عوام دوست ہیں یا ان کے جذبات کی ترجمان ہیں۔ تینوں بڑی پارٹیوں نے عوامی حکمرانی کی جنگ لڑنے سے پہلے ہارنے کا اعلان کیا ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کا معاملہ ایک فرد کی صلاحیت یا ایک حکومتی شعبے کی ضرورت و اہمیت کی بابت نہیں ہے۔ کسی بھی صورت میں کوئی ایک فرد کسی شعبے یا ادارے کے لئے ناگزیر نہیں ہو سکتا۔ جنرل باجوہ کی صلاحیت یا ان کی شخصی خوبیاں اس وقت زیر بحث نہیں ہیں۔ یہ بھی موضوع بحث نہیں تھا کہ فوج کے قائد کا انتخاب کرتے ہوئے وزیر اعظم یا حکومت کو کن اصولوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ اس وقت اس اصول سے بحث مطلوب تھی کہ عمران خان کیوں جنرل باجوہ کو ہی مزید تین برس کے لئے آرمی چیف بنانا چاہتے تھے۔ اور یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے کیوں گزشتہ دو ماہ سے فوج اور اس کے سربراہ کی پوزیشن کو ناپسندیدہ مباحث کا موضوع بنانا ضروری سمجھا گیا ہے۔ اگر ملک کی فوج کے سربراہ کی تقرری یا توسیع کا معاملہ اس قدر اہم قومی مسئلہ تھا تو پارلیمنٹ میں اس پر بحث کروانے اور فراخدلانہ ڈائیلاگ کے ذریعے عوام کو اعتماد میں لینے کا اہتمام کیوں نہیں کیا گیا۔

اپوزیشن جماعتوں نے جولائی 2018 کے انتخابات اور عمران خان کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سے اس حکومت کو نامزد اور ناپسندیدہ قرار دینے کی مہم شروع کی ہوئی تھی۔ تحریک انصاف کی پے در پے سیاسی و انتظامی ناکامیوں اور معاشی کوتاہیوں کی وجہ سے بھی یہ واضح ہونا شروع ہوگیا تھا کہ ملک کی حکومت کسی ایک سیاسی ایجنڈا کے تحت کام نہیں کررہی بلکہ تضادات کا مجموعہ ہے۔ بعض اوقات تو یوں لگتا ہے کہ خود وزیر اعظم کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کس پالیسی پر عمل کرنا ہے۔ وہ چابی سے چلنے والے ایک روبوٹ کی طرح کام کرتے ہیں۔ جب کہا گیا سعودی عرب روانہ ہوگئے اور جب ضرورت محسوس ہوئی تو عالمی لیڈروں سے کئے ہوئے وعدوں سے منحرف ہو گئے۔ کبھی وزیر اعظم اچانک دوروں پر روانہ ہوتا ہے اور اسے قومی مفاد قرار دیا جاتا ہے اور کبھی دوسرے ملکوں کے لیڈر اچانک پاکستان کو شرف میزبانی بخشتے ہیں اور اسے ہی پاکستانی عوام کا اعزاز اور مفاد کہا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران سعودی وزیر خارجہ کا اچانک دورہ اور آج متحدہ عرب امارات کے ولی عہد کی پاکستان تشریف آوری کا معاملہ اس کی روشن مثالیں ہے۔

اب کسی کو اس بارے میں شبہ نہیں ہونا چاہئے تحریک انصاف نے بدعنوانی کے خاتمے اور بلا تخصیص احتساب کے جس ایجنڈے پر حکومت کا آغاز کیا تھا وہ ایک گھٹیا اور آزمودہ سیاسی ہتھکنڈے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ قیام پاکستان کے بعد اور قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد سے غیر منتخب اسٹبلشمنٹ نے جب بھی ملک کا انتظام منتخب سیاسی نمائیندوں سے ہتھیانے کی منصوبہ بندی کی تو احتساب اور بدعنوانی کو ہی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ اسٹبلشمنٹ ہی دراصل ملک میں کرپشن کے فروغ اور احیا کا سبب بنی ہے۔

اس کا آغاز قیام پاکستان کے بعد متروکہ املاک کی لوٹ مار، ناجائز قبضوں اور الاٹمنٹ میں دھاندلیوں سے ہؤا تھا۔ اس کے بعد سماج کا ہر شعبہ آہستہ آہستہ قانونی طریقہ کار کی بجائے مفاد پرستی اور اقربا پروری کا شکار ہونا شروع ہو گیا۔ اب یہ زہر معاشرے میں اوپر سے نیچے تک سرایت کر چکا ہے۔ اسی لئے جب بھی کوئی بدعنوانی ختم کرنے کی بات کرتے ہوئے سیاست دانوں کو مطعون کرتا ہے تو واہ واہ کرنے والوں کا ایک گروہ اسے میسر آ جاتا ہے۔ اس شور وشغب میں کوئی یہ جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ کرپشن کیسے ختم کی جا سکتی ہے۔ چند افراد پر الزام دھرنے سے سیاسی بدنیتی کے کسی ایجنڈے کو تو پورا کیا جاسکتا ہے لیکن سماجی اصلاح کے کسی مؤثر پروگرام کو شروع نہیں کیا جا سکتا۔

اب تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جب ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر پارلیمنٹ پر عسکری بالادستی کے اصول کو قانونی حیثیت دیں گی تو یہ اس ملک میں سیاسی کرپشن کی بدترین مثال ہوگی۔ احتساب آرڈی ننس میں ترمیم کے ذریعے عمران خان ’بلا تخصیص احتساب‘ کے نعرے کو پہلے ہی دفن کر چکے ہیں۔ اب وہ خود اور ان کے معاونین تقریروں اور پریس کانفرنسوں میں نیب کو بے اختیار کرنے والے آرڈی ننس کو بہترین قومی مفاد کا نام دینے اور معاشی احیا کا واحد راستہ بتانے کا عذر تراش رہے ہیں۔ لیکن دراصل یہ فیصلہ بھی یہی واضح کرتا ہے کہ عمران خان کے نعرے جھوٹے تھے۔ ان کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی عمران خان کسی اصلاحی ایجنڈے کے ساتھ اقتدار کی جد و جہد کرتے رہے تھے۔ ان کا ایجنڈا بھی وہی تھا جو دوسری بڑی پارٹیوں کا رہا ہے کہ کسی بھی قیمت پر اقتدار تک رسائی حاصل کی جائے۔ اس کے لئے وہ عوام کے حقوق کا نعرہ بلند کرتے ہیں لیکن فوجی قیادت کی خوشامد کرتے ہوئے اس کی سرپرستی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اب یہ سارے مفاد پرست مل کر آرمی ایکٹ میں ترمیم کریں گے اور حسرت بھری امید کے ساتھ جنرل باجوہ کی طرف دیکھیں گے کہ ’لیجئے صاحب ہم نے حق نمک ادا کیا، اب آپ بھی ہمارے مفاد کا خیال رکھیں‘۔

پاکستان کو معاشی انحطاط، بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی، ماحولیاتی تباہ کاری، پانی کی قلت، آبادی میں اضافہ، انتہا پسندی، مذہبی منافرت، بھارتی جارحیت، عالمی سفارتی تنہائی اور دیگر سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ملک کے سارے چھوٹے صوبے سیاسی فیصلوں، معاشی ترجیحات، اور انتظامی اختیار پر پنجاب کے تسلط سے بیزار ہیں۔ لیکن ملک کی دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی، حکمران جماعت کے ساتھ مل کر فوج کے سربراہ کے عہدے کی مدت میں توسیع کو اہم ترین مسئلہ قرار دینے میں ایک قالب دو جان ہو رہی ہیں۔ ایک جمہوری ملک میں آرمی چیف کے عہدے کو ہی سب سے بڑا قومی مسئلہ بنانے والے دراصل عوام کو بالعموم اور چھوٹے صوبوں کے لوگوں کو بالخصوص مایوس کرنے کا سبب بنے ہیں۔

جمعہ 3 جنوری کا دن پاکستان میں جمہوری جد و جہد پر سنگین وار کی حیثیت اختیار کرنے والا ہے۔ اپوزیشن نے پارلیمانی بالادستی کی جنگ لڑنے کی بجائے ہتھیار پھینک کر عوامی خواہشات کا خون کیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آرمی چیف کی توسیع: نہ کوئی بندہ رہا، نہ کوئی بندہ نواز
04/01/2020 سید مجاہد علی


قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں نے نئے آرمی ایکٹ کی منظوری دے دی ہے۔ غالب امکان ہے کہ ہفتہ کے روز اسے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور بھی کروالیا جائے گا۔ اس طرح ملک کی سب سیاسی پارٹیوں نے ملک و قوم سے گہری محبت اور پاک سرزمین سے وفاداری کا ثبوت بہم پہنچا دیا ہے۔ اب اطاعت گزاری میں محمود و ا یاز ایک ہوئے۔ کسی کو کسی پر برتری حاصل نہیں رہی۔

ترمیم شدہ آرمی ایکٹ کو خواہ کوئی بھی نام دیاجائے اور اگرچہ اس میں فوج کے علاوہ بحریہ اور ائیرفورس کے سربراہان کی تقرری اور توسیع کے علاوہ چئیر مین جوائینٹ چیفس کمیٹی کی ریٹائرمنٹ کی عمر کے تعین اور توسیع کا معاملہ بھی شامل کیا گیا ہے لیکن اس بارے میں کسی کو بھی شبہ نہیں ہے کہ یہ اہتمام جنرل قمر جاوید باجوہ کو موجودہ عہدے پر برقرار رکھنے کے لئے کیا گیا ہے۔ یہ سوال ہمیشہ جواب طلب رہے گا کہ ملک کے ایک باوقار عہدے کو ایک شخص کے ساتھ منسلک کرنے سے کون سا قومی مفاد حاصل کیا گیا اور کیوں اپوزیشن پارٹیاں اس سوال پر کسی قسم کی مزاحمت کرنے میں ناکام رہیں۔ حتیٰ کہ بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے بل کی حمایت کے ساتھ ہی یہ کہا گیا تھا کہ’ اگر پارلیمانی طریقہ پر عمل کیا گیا تو پیپلز پارٹی اس کی حمایت کرے گی‘۔

یہ تو پارلیمانی امور کے ماہرین ہی بتا سکتے ہیں کہ ایک ہی دن میں بل پیش کرنے کے بعد قائمہ کمیٹیوں سے اس کی متفقہ منظوری کون سے مسلمہ پارلیمانی طریقہ کار کی تصویر پیش کرتی ہے؟ البتہ اس دوران نواز شریف سے موسوم ایک نام نہاد خط کے حوالے سے خبریں پاکستانی میڈیا میں گشت کرتی رہی ہیں جس میں مبینہ طور پر مسلم لیگ کے قائد نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی ہے کہ کوئی بل چوبیس یا اڑتالیس گھنٹے میں منظور کرنا پارلیمنٹ کے وقار کے مطابق نہیں ہوگا۔ البتہ اگر اسے دس بارہ دن کی ’مشقت‘ اور پروسیجر کے بعد منظور کرلیا جائے تو یہ اس پارلیمنٹ اور اس کے ارکان کی عزت و وقار کی سربلندی کا سبب بنے گا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کی طرف سے منظوری کے بعد یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ یا تو یہ خط اور اس کے مندرجات جھوٹے ہیں یا مسلم لیگ (ن) کے اراکین پارلیمنٹ نے نواز شریف کی باتوں پر کان دھرنا چھوڑ دیا ہے۔

یہ الگ بحث ہے کہ حکومت کو غیر مشروط حمایت کا یقین دلانے کے بعد مسلم لیگ (ن) نے کیوں اس قسم کے خط یا ہدایت نامہ کے مندرجات عام کرنے کی ضرورت محسو س کی۔ اس سے نہ تو غلط سیاسی فیصلہ درست ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس طرح پارلیمنٹ کو مؤثر اور باوقار ادارہ ثابت کیا جاسکتا ہے۔ البتہ اس سے یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ جس ووٹر اور پارٹی کارکن کو بدھو اور عقل سے پیدل سمجھ کر نواز شریف کے علاوہ دیگر تمام سیاسی لیڈر قلابازیاں کھاتے ہیں، وہ ابھی اب جمہوریت اور قومی مفاد کے نام پر رچائے گئے اس ٹوپی ڈرامہ سے باخبر ہوچکے ہیں۔ یہ سوال تمام بڑی پارٹیوں کے کارکنوں کی طرف سے اٹھایا جارہا ہے کہ آخر آرمی چیف کے عہدے میں توسیع کیوں اتنی اہم تھی کہ اس کے لئے بنیادی پارلیمانی و جمہوری اصولوں کو کچلنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔

سیاسی کارکنوں اور عام لوگوں میں پروان چڑھنے والی یہ رائے ہی دراصل وہ قوت ہے جو اس ملک کے جمہوری سفر میں روشنی کی واحد کرن ہے۔ اسی رائے سے خوفزدہ لیڈر اب پارلیمانی طریقہ کار کو عذر بنانے کی کوشش کررہے ہیں یا یہ کہا جارہا ہے کہ فوج کے ادارے کو متنازعہ بنانا قومی مفاد کے خلاف اقدام ہوتا۔ اگرچہ کسی کے پاس اس بات کا جواب نہیں ہے کہ ایک آرمی چیف کی توسیع کا معاملہ کیوں کر فوج کے وقار اور قومی مفاد سے منسلک کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر یہی امر واقعہ ہے تو خود جنرل قمر جاوید باجوہ کو اس وقار و مفاد کی حفاظت کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا۔ انہوں نے کیوں کر یہ برداشت کرلیا کہ سپریم کورٹ میں اس معاملہ پر درخواست کی سماعت کے دوران تین روز تک حکومتی فیصلہ کے بخیے ادھیڑے جائیں لیکن وہ آخری لمحے تک سپریم کورٹ کے کسی ’مثبت ‘ فیصلہ کا انتظار کرتے رہیں۔ انہوں نے خود ہی اس عہدہ سے اپنے وقت پر یعنی 29 نومبر 2019 کو علیحدہ ہونے کا اعلان کرکے فوج کو پریشانی اور قوم کو خسارے سے کیوں نہیں بچا لیا؟

جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے خاموشی اور عدالتی طریقہ کے بعد پارلیمانی عمل کو برداشت کرنے کا فعل اس بات کی دلیل ہے کہ اس معاملہ میں قومی مفاد اور فوج کے وقار کی دلیل دراصل سیاسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے دی جارہی ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ جنرل باجوہ اپنے نامکمل ایجنڈا کی تکمیل کے لئے ہر قیمت پر آرمی چیف کے عہدہ پر متمکن رہنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لئے حکومت کے علاوہ تمام اپوزیشن جماعتوں کو دو ٹوک پیغام دیا گیا تھا۔ ورنہ سپریم کورٹ سے سابقہ حکم پر نظر ثانی کی درخواست پر فیصلہ کا انتظار کئے بغیر یوں یک بیک نئے سال کا سورج طلوع ہوتے ہی ایک ایسے نئے پاکستان کے ابھرنے کی نوید نہ سنائی جاتی جس میں عوامی حاکمیت کے بنیادی جمہوری تصور کو تباہ کرنے کا ہر سامان بہم پہنچایا گیا ہے۔ المیہ مگر یہ ہے کہ جنرل باجوہ کو توسیع تو مل جائے گی اور وہ مزید تین برس تک پاک فوج کے سربراہ بھی بنے رہیں گے لیکن اس عہدہ کے ساتھ وابستہ وقار اور احترام آلودہ ہوچکا ہے۔ اسی لئے باجوہ ڈاکٹرائن نام کا اگر کوئی ایجنڈا موجود ہے بھی تو فوج کی پوری قوت بھی اس کی تکمیل کا اہتمام نہیں کرسکے گی۔ توسیع کے سوال پر انہی عناصر سے سمجھوتے کئےگئے ہیں جن سے قوم کو نجات دلوانے کے لئے عمران خان نام کا ’چاند‘ چڑھایا گیا تھا۔

پھر بھی اصرار کیا جاسکتا ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ خود مختار اور سیاسی جماعتیں اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں۔ اور جنرل باجوہ اپنی مدت میں توسیع صرف اس مجبوری میں قبول کررہے ہیں کہ حکومت قومی اہمیت کے متعدد عسکری مفادات کی وجہ سے اس وقت نیا آرمی چیف لانا مناسب نہیں سمجھتی۔ اور فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ تو آئین کی پابند اور ہر کام دستور کے مطابق کرنے کو عین راحت اور نصب العین سمجھتی ہے۔ اور آرمی چیف کی تقرری سے فوج کا کوئی لینا دینا نہیں ہے بلکہ یہ وزیر اعظم کا اختیار ہے۔ وہ کسی جونیئر جرنیل کوبھی آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کرلے تو باقی سینئر جنرل منتخب وزیر اعظم کے اس فیصلہ کے سامنے سر جھکا کر مستعفی ہوجاتے ہیں اور گھر چلے جاتے ہیں۔

فوج ایک منظم ادارہ ہے جو اپنے ضابطہ کار اور مقررہ اصولوں کا پابند ہے۔ چین آف کمانڈ کا تابعدار ہے۔ اسی لئے اگر کوئی عدالت یہ حوصلہ کرلے کہ ایک سابق آرمی چیف کی بے اعتدالی کو آئین شکنی قرار دے تو فوجی ترجمان کو اسے مسترد کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ عدالت کا احترام واجب نہیں ہے بلکہ اس لئے کہ فوج میں چالیس سال خدمات سرانجام دینے والا کوئی شخص کیسے ’غدار‘ ہوسکتا ہے۔ اس بارے میں کوئی جج نہیں بلکہ فوج کا ترجمان ہی درست رائے پیش کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ اسی لئے اس شبہ کی تصحیح کے لئے فوج کے ترجمان کو میدان میں آنا پڑا۔

لیجئے صاحب ! مان لیتے ہیں کہ فوج کا سربراہ بس اتنا ہی بااختیار ہے کہ سرحدوں کی حفاظت کا فرض پورا کرے اور دشمن کی میلی آنکھ نکالنے کے لئے عقاب کی مانند جھپٹنے کو تیار ومستعد ہو۔ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ وزیر اعظم کو اہم سیکورٹی معاملات پر اپنی ماہرانہ رائے اور ’عاجزانہ‘ مشورہ ‘ پیش کر نے کے بعد زور دار سلیوٹ مارے اور عرض کرے کہ’ جو حکم میرے آقا‘۔ اب اگر وزیر اعظم ہر معاملہ پر رائے کے لئے آرمی چیف سے ملاقات کی خواہش ظاہر کرے تو ایک ’ماتحت‘ کا اس کے سوا کیا کام ہے کہ حکم بجا لائے۔ اس کا جواب تو وزیر اعظم ہی دے سکتے ہیں کہ وہ ہر اہم قومی بحران میں پارلیمنٹ میں جانے کی بجائے آرمی چیف کی ’بغل‘ میں کیوں دکھائی دیتے ہیں؟

اس خوشنما تصویر میں یہ پہلو بھی دیکھنا چاہئے کہ ایک دوسرے کی دشمن سیاسی جماعتیں جب یوں شیر و شکر ہوجائیں کہ ایک دن کے نوٹس پر پارلیمنٹ کا اجلاس طلب ہو اور چوبیس گھنٹے کی مشاورت کے بعد اہم ترین قومی معاملہ پر اتفاق رائے پیدا ہوجائے اور قائمہ کمیٹیوں سے قانون کی منظوری کے بعد اسے پارلیمنٹ کی حتمی منظوری کے لئے تیار کرلیا جائے۔۔۔تو سمجھ جانا چاہئے کہ یہ ساری جماعتیں شدید اختلاف کے باوجود اہم ترین قومی مقصد یعنی ’پارلیمنٹ کی خود مختاری کے احترام‘ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتیں۔ اب دل جلے خواہ اسے جمہوریت دشمنی قرار دیں یا ’ووٹ کو عزت دو‘ کو بوٹ کو عزت دو کے طور پر پڑھنا شروع کردیں، سیاسی لیڈر ان معمولی اعتراضات کی وجہ اپنے قومی فریضہ سے کیسے پیچھے ہٹ سکتے ہیں؟

یہ ساری باتیں آنے والے دنوں میں ٹاک شوز کے پرجوش قوم پرست اینکرز اور دور کی کوڑی لانے والے تجزیہ نگاروں کے منہ سے قوم کو ازبر کروائی جائیں گی۔ سیاہ کو سفید قرار دینے والے جب اس بوالعجبی پر اصرار کرتے ہیں تو دراصل وہ اپنی بات کی تکرار میں خود ہی سیاہ کو سفید دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس سے سیاہ رنگ سفید نہیں ہوجاتا۔ مسئلہ اگر صرف ایک اصول کا تھا۔ پارلیمنٹ کو اگر سپریم کورٹ کو یہ پیغام دینا مطلوب تھا کہ قانون سازی اور قومی معاملات پر فیصلے کرنا اس کا اختیار ہے۔ اگر یہ مسئلہ ایک شخص کو خوش کرنے کی بابت نہیں ہے اور اگر آرمی چیف کا عہدہ ایک عسکری ادارے کی ذمہ داری سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا تو اس میں کیا مضائقہ ہے کہ ساری پارٹیاں مل کر آرمی ایکٹ میں ترمیم کریں لیکن یہ بھی قرار دیں کہ اس کا اطلاق 29 مئی 2020 کو مقرر ہونے والے نئے آرمی چیف کے عہد سے ہوگا۔

اگر یہ بھاری پتھر پارلیمنٹ کی ساری طاقت بھی مل کر بھی نہیں اٹھا سکتی تو سمجھ لیا جائے کہ اس ملک میں ایک ہی عہدہ اختیار و فیصلوں کا محور ہے۔ اور اس عہدے کا نام چیف آف آرمی اسٹاف ہے۔ اسی لئے اس عہدے پر فائز رہنے کے لئے سیاسی بیانیہ اور قومی مفاد کی توضیح و تشریح تبدیل ہوجاتی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اسی نکتہ پر تحریک انصاف کا دیگر جماعتوں سے اصولی اختلاف ہے۔ ہمارا موقف اصولی ہے کہ جو سیاست دان اور سیاسی جماعتیں ماضی میں جرنیلوں سے فائدے حاصل کر چکی ہیں وہ اب کس حیثیت سے ان کے خلاف انقلاب لائیں گی؟ اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ تین سال سویلین بالا دستی کا ڈرامہ کرنے والے نام نہاد جمہوریے ایک آرمی چیف کی ایکسٹینشن پر ڈھیر ہو گئے۔
آپ کیلئے شاید یہ نئی بات ہوگی۔ ہم تو ان دونوں جماعتوں اور اس سے منسلکہ مفاد پرست سیاست دانوں کے کرتوت ۱۹۷۰ سے دیکھ رہے ہیں۔ ادھر تم ادھر ہم، میں ضیا الحق کا مشن پورا کروں گا، زرداری کا پیٹ پھاڑ کر پیسہ واپس لاؤں گا، خلائی مخلوق نے واٹس ایپ کے ذریعہ مجھے نااہل کر دیا، عمران خان سلیکٹڈ وزیر اعظم ہے وغیرہ وغیرہ۔ آج اپنے ذاتی مفاد میں یہ سب ڈرامہ بازیاں ختم اور اصلی بیانیہ سامنے آگیا ہے۔ جو ہمیشہ سے تھا کہ مشکل کے وقت جرنیلوں کے پاؤں پڑنے ہیں اور اقتدار میں آکر جرنیلوں کا گلا پکڑنا ہے :)
کوئی بات نہیں۔ ہم بار بار دھوکا کھائیں گے۔ ہم کون سا مومن ہیں! سویلین بالادستی کی جو آواز بلند ہو، ہمیں اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ یہ ہمارا اصولی موقف ہے۔
اس وقت عمران خان اقتدار میں جنرل باجوہ، جنرل آصف غفور، جنرل فیض حمید وغیرہ کی حمایت کی وجہ سے ہیں۔ اس ٹاپ کمانڈ میں تبدیلی کے بعد شاید وہ نئے آنے والے جرنیلوں کی حمایت حاصل نہ کر پائیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کو موجودہ جرنیلوں سے ہی ان بن کے بعد اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔
تب، خان صاحب کا ساتھ ہم تو کم از کم ضرور دیں گے۔ :)
 
ایرانی جنرل کی تو ایرانی جانیں اُن کے پاس اور بھی ہونگے۔ شکر کرو ہمارے والے جنرل کو کچھ نہیں ہوا، اپُن کے پاس تو کوئی متبادل بھی نہیں ہے۔
۔۔۔
منقول
 

جاسم محمد

محفلین
تب، خان صاحب کا ساتھ ہم تو کم از کم ضرور دیں گے۔ :)
اس وقت جب ہم نظریاتی انصافین ان کا ساتھ نہ دے رہے ہوں گے تو آپ کس حیثیت سے دیں گے؟ :)
اصولا تو بھٹو، نواز شریف، عمران خان وغیرہ کو اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پہ چڑھ کر اقتدار میں آنا نہیں چاہیے تھا کہ یہ آئین و قانون کے منافی ہے۔ لیکن جب ان کو لانے والے لات مار کر باہر نکالتے ہیں تو عین اس وقت ان کو آئین و قانون یاد آجاتا ہے۔ یہ کھلا تضاد ہے اس لئے ہم نظریاتی انصافین اس کی حمایت نہیں کر سکتے۔ ہاں اگر کوئی سیاست دان واقعتا ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئے اور پھر اسے فوج اقتدار منتقل نہ کرے یا اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جیسے شیخ مجیب تو اس صورت میں ووٹ کو عزت دو نظریہ کی حمایت کی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ ان کھوٹے سکوں پر وقت برباد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو صرف اپنے ذاتی مقاصد کے حصول تک فوج مخالف بیانیہ عوام میں بیچتے ہیں۔ اور مفادات پورے ہو جانے پر دوبارہ بوٹ پالش شروع کر دیتے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس وقت جب ہم نظریاتی انصافی ان کا ساتھ نہ دیں گے تو آپ کس حیثیت سے دیں گے؟ اصولا تو بھٹو، نواز شریف، عمران خان وغیرہ کو اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پہ چڑھ کر اقتدار میں آنا نہیں چاہیے تھا کہ یہ آئین و قانون کے منافی ہے۔ لیکن جب ان کو لانے والے لات مار کر باہر نکالتے ہیں تو اس وقت ان کو آئین و قانون یاد آجاتا ہے۔ یہ کھلا تضاد ہے اس لئے ہم نظریاتی انصافین اس کی حمایت نہیں کر سکتے۔ ہاں اگر کوئی سیاست دان واقعتا ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئے اور پھر اسے فوج اقتدار منتقل نہ کرے جیسے شیخ مجیب تو اس صورت میں ووٹ کو عزت دو کی حمایت کی جا سکتی ہے۔
ایسا ہونا بہت مشکل ہے کہ یہاں طویل مدت تک کوئی جینوئن سیاست دان ابھر سکے۔ کم تر برائی کا ساتھ دینا مجبوری ہے! بھٹو غیر معمولی شخصیت بن کر ابھرے تھے اور ان کی بنیادی وجہء شہرت اینٹی اسٹیبشمنٹ پالیٹکس تھی تو اس وقت عوام نے اُن کا ساتھ دے کر کیا گناہ کیا تھا!
 

جاسم محمد

محفلین
ایرانی جنرل کی تو ایرانی جانیں اُن کے پاس اور بھی ہونگے۔ شکر کرو ہمارے والے جنرل کو کچھ نہیں ہوا، اپُن کے پاس تو کوئی متبادل بھی نہیں ہے۔
۔۔۔
منقول
کون کہتا ہے متبادل جنرل موجود نہیں؟ مولانا ڈیزل اور لالہ سراج نے اپنے اس جنرل کی آس میں جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن نہیں دیا
 

جاسم محمد

محفلین
ایسا ہونا بہت مشکل ہے کہ یہاں طویل مدت تک کوئی جینوئن سیاست دان ابھر سکے۔ کم تر برائی کا ساتھ دینا مجبوری ہے! بھٹو غیر معمولی شخصیت بن کر ابھرے تھے اور ان کی بنیادی وجہء شہرت اینٹی اسٹیبشمنٹ پالیٹکس تھی تو اس وقت عوام نے اُن کا ساتھ دے کر کیا گناہ کیا تھا!
بھٹو نے بھی جرنیلوں کے بوٹ پالش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھا۔ جسٹس حمود الرحمان کمشن رپورٹ جس میں ملک توڑنے والے غدار جرنیلوں کا نام اور کرتوت درج تھے کو بھٹو نے پھانسی سے بچا لیا تھا۔ اور وہ رپورٹ ایسے غائب کی جیسے گدھے کے سر سے سینگھ۔
 
Top