آدھی رات کا سورج ۔۔۔ فرانس اور سپین کا سفرنامہ

زیف سید

محفلین
دوستو: مئی کے مہینے میں خاک سار کو فرانس اور سپین جانے کا موقع ملا۔ اسی سفر کی روداد ان صفحات پر پیشِ خدمت ہے ۔۔۔ اگر قبول افتد۔

[U]شہیدوں کی شاہراہ[/U]

آج میرا پیرس میں دوسرا اور آخری دن تھا۔ اگرچہ کل سارا دن پھرکی کی طرح ادھر ادھر گھومتا پھرتا رہا تھا اس لیے رات شدید تھکان تھی۔ مگر اس کے باوجود صبح سویرے اٹھنا پڑا کیوں کہ مجھے جنوبی فرانس جانے کے لیے ٹرین پکڑنا تھی۔ رائل فرومنٹین ہوٹل کی دلِ کنجوس سے بھی تنگ لفٹ سے جب میں اتر کر استقبالیے پر پہنچا تو میرے نام استقبالیہ خاتون کا پیغام موجود تھا۔ بے حد ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ میں اپنا سوٹ کیس ہوٹل ہی میں چھوڑ کر جا سکتا ہوں اور یہ کہ سپین سے واپسی پر میرے لیے اسی ہوٹل میں بکنگ ہو چکی ہے۔

چوں کہ ناشتہ ہوٹل کے کرائے ہی میں شامل تھا، اس لیے کرنا ضروری تھا، لیکن مالٹے کے کھٹے جوس، چند لمبوتری فرانسیسی ڈبل روٹیوں اور بے حد کڑوی کافی کے سوا ناشتے کی میز پر کچھ نہیں تھا۔ سفید ایپرن باندھے ہوئے شفیق باورچن نے مجھے ناشتے کی خوبیوں پر شستہ فرانسیسی میں لیکچر دیا لیکن ظاہر ہے کہ اپنے پلے کوئی بات نہیں پڑی۔

جب میں ٹیکسی لے کر مونت پارنیس ٹرین سٹیشن پہنچا تو لشکتی چمچماتی ٹی وی جی ٹرین جنوبی فرانس کے شہر بوردو جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ اب کہا نہیں جا سکتا کہ عام طور پر اس روٹ پر زیادہ مسافر سفر نہیں کرتے یا اتفاق سے وہ ہفتے کا کوئی ایسا دن جب زیادہ بھیڑ بھاڑ نہیں ہوتی، کہ ٹرین زیادہ تر خالی پڑی تھی۔ میں نے اپنے لیے ایک سیٹ کا انتخاب کیا اور چند لمحوں بعد ٹرین چل دی۔

ٹی وی جی بلٹ ٹرین ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار تین سو کلومیٹر فی گھنٹا ہے، اس لیے یہ پلک جھپکتے ہی پیرس کی حدوں سے نکل گئی۔ میرے سامنے ایک بظاہر مفلوک الحال سا خاندان بیٹھا ہوا تھا، تین بچے، ایک درمیانی عمر کی خاتون اور ایک بڑی عمر کی محترمہ۔ انداز سے وہ مجھے جپسی معلوم ہوئے۔ جپسیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ ایک ہزار سال قبل پنجاب کے میدانوں سے ہجرت کر کے یورپ میں جا آباد ہوئے تھے، اور ان کی زبان میں اب بھی پنجابی اور سرائیکی زبانوں کی باقیات ملتی ہیں۔ میں نے اس لالچ میں ان کی گفتگو غور سے سننے کی کوشش کی کہ شاید کوئی شناسا لفظ کان میں پڑ جائے لیکن اس مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی۔

میری منزل پوئٹیرز کا ننھا منا شہر تھا، جو پیرس سے کوئی ساڑھے تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ راستے میں تین سٹیشن پڑے لیکن اس کے باوجود ٹرین گھنے جنگلوں، شاداب کھیتوں اور چھوٹے چھوٹے دیہاتوں سے ہوتی ہوئی ڈیڑھ گھنٹے کے اندر اندر پوئیٹیرز پہنچ گئی۔

پوئیٹیرز بہت پرانا شہر ہے۔ اس کی بنیاد رومی سلطنت کے آغاز سے بھی پہلے پڑ چکی تھی۔ رومی دور میں بڑی شاہراہ کے قریب ہونے کی وجہ سے شہر کو مرکزی اہمیت حاصل تھی۔ اس زمانے کی کئی یادگاریں شہر میں موجود ہیں۔ شہر کی گلیاں تنگ اور اونچے نیچے پتھر کی بنی ہوئی ہیں۔ گلیوں میں سیاحوں کی سہولت کے لیے نیلی، پیلی اور سرخ رنگ کی راہ نما پٹیاں بنائی گئی ہیں جن پر چلتے ہوئے آپ شہر کی اہم عمارتیں اور دل چسپی کے دوسرے مقامات باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔

غالباً پوئیٹیرز کی سب سے اہم تاریخی عمارت نوٹرے ڈیم کا کیتھیڈرل ہے۔ اسی کا زیادہ مشہور ہم نام بھائی پیرس میں ہے، لیکن گاتھک انداز میں بنایا گیا ہلکے بھورے رنگ کا یہ کلیسا بھی بہت رعب دار اورپر تمکنت ہے۔ اسے بارھویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ مجھے کلیسا کی بیرونی دیواروں اور مخروطی محرابوں کے ارد گرد بنائے گئے ابھرواں سنگ تراشی کے نمونوں نے خاص طور پر متاثر کیا، جن میں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر آخری عشائیے تک کی داستان تصویری شکل میں پیش کی گئی ہے۔ ان مجسموں کو دیکھ کر مجھے بچپن میں جنگ اخبار میں شائع ہونے والی ٹارزن کی تصویری یا کامک کہانیاں یاد آ گئیں جن کے خالق ہر ہفتے کہانی کو اس قدر سنسنی خیز موڑ پر چھوڑ دیتے تھے کہ اگلی قسط کے انتظار میں ہفتہ کاٹنا دوبھر ہو جاتا تھا۔

لیکن میں نے اتنا کشٹ پوئیٹیرز کا کلیسا دیکھنے کے لیے نہیں اٹھایا تھا، اس لیے ہوٹل میں سامان رکھ، ہاتھ منھ دھو اور کپڑے بدل کر میں باہر نکل آیا۔ اسی اثنا میں ہوٹل والے کے عملے نے فون کر کے ٹیکسی منگوا لی تھی۔ چھوٹی سی رینو ٹیکسی میں سیاہ فام ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ کر میں شہر کے شمال مشرق کی طرف روانہ ہو گیا۔ میری منزل بیس کلومیٹر دور ایک جگہ تھی۔ راستے میں ایک بے حد دل کش نیلگوں جھیل نظر آئی لیکن میں کوشش کے باوجود اس کا نام نہیں دیکھ سکا۔

آدھے گھنٹے کے بعد ٹیکسی ایک چھوٹی سی پہاڑی پر بنی ہوئی ایک عمارت کے سامنے کھڑی تھی، جس کے بائیں طرف ایک چھوٹی ندی بہتی ہے جو کئی جگہوں پر چھوٹی چھوٹی جھیلوں میں منقلب ہو جاتی ہے، جب کہ دائیں طرف اونچی نیچی زمین پر ہرے بھرے کھیتوں کے بعد ایک چھوٹی سی بستی ہے جس کے ساتھ ساتھ ایک دریا کی جھلک بھی نظر آ رہی ہے۔

یہ وہ مقام ہے جسے فرانسیسی میں موسائی بتائل Moussais-la-Bataille اور عربی میں بلاط الشہدا کہتے ہیں۔

میں ٹیکسی سے اتر آیا۔ مئی کا مہینہ ہے، لیکن پھر بھی ہلکی سی خنکی کا احساس ہو رہا ہے۔ آسمان کسی بچے کی آبی رنگوں سے بنائی ہوئی تصویر کے مانند بے حد نیلا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد دور سڑک سے کسی گاڑی کی آواز کے باوجود فضا گمبھیر سکوت کی تہوں میں لپٹی ہوئی ہے۔ میں گہرا سانس لے کر کچھ سننے کی کوشش کرتا ہوں۔ خاموشی، بے کراں خاموشی۔ لیکن کچھ دیر کے بعد مجھےمدھم مدھم سی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ غور سے سننے کی کوشش کرتا ہوں تو آوازیں کچھ کچھ واضح ہونا شروع ہوتی ہیں، جیسے ریڈیو کی سوئی گھما کر سٹیشن کی نشریات صاف ہو جاتی ہیں۔ گھوڑوں کی ہنہناہٹیں، آپس میں ٹکراتی ہوئی تلواروں، نیزوں اور بھالوں کی کھنک، تیروں کی سنسناہٹ، یلغار کرتے ہوئے دستوں کے پرجوش نعرے، زخمیوں کی فریادیں۔

رفتہ رفتہ پہاڑی پر بنی عمارتیں تحلیل ہو جاتی ہیں، دامن میں لپٹی ہوئی سڑک غائب ہو جاتی ہے، دائیں ہاتھ پر بنا گاؤں روپوش ہو جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس جگہ ایک گھنا جنگل اُگ آتا ہے۔

نیچے پہاڑی کے دونوں جانب پھیلے میدان میں تاحدِ نگاہ سیاہ رنگ کے خیمے نصب ہیں، جن کے آگے میدان میں قِطاروں میں گھڑسوار ہاتھوں میں بھالے تھامے ترتیب سے کھڑے ہیں۔ پہاڑی پر درختوں کے اندر بھی ہل چل کا سماں ہے، جہاں سے چڑھائی شروع ہوتی ہے وہاں ہاتھوں میں لکڑی کی ڈھالیں سنبھالے، شانے سے شانہ، قدم سے قدم ملائے سپاہیوں کی قطاریں ایستادہ ہیں، جو دور کسی ہزارپا کی طرح نظر آ رہی ہیں۔

گھڑسواروں کی قطاروں میں سے ایک درمیانی عمر کا شخص اپنے سیاہ شامی گھوڑے کو ایڑ لگا کر لشکر کے بائیں طرف لے گیا۔ اس کا تمام بدن زنجیر دار زرہ بکتر میں ملفوف ہے اور سر پر آہنی خود ہے جسے چہرے کے ایک حصے کو بھی ڈھانپ رکھا ہے۔ آنکھیں بے حد نمایاں اور چمکیلی ہیں جن میں عزم کی سختی جھلکتی ہے۔

یہ عبدالرحمٰن ابن عبداللہ الغافقی ہے۔

30 ہزار گرم و سرد چشیدہ سواروں پر مشتمل اس کی فوج کا دریا رومیوں کی بنائی ہوئی نیم پختہ شاہ راہ پر ٹھاٹھیں مارتا ہوا ’ارض الکبیر‘(یورپ) پر بڑھا چلا جا رہا ہے کہ یکایک اس کا راستا جنگل میں کھڑی فرنگی ہزار پا نے روک دیاہے۔

الغافقی کی فوج کا بیشتر سواروں پر مشتمل ہے۔ ہر سوار سر سے پیروں تک زرہ بکتر میں غرق ہے۔ عرب کمان داروں کی زرہِ بکتر باریک زنجیروں سے بنی ہوئی ہیں، جو تلوار کا وار اُچٹنے کے لیے بے حد کارگر ہیں۔ جری بربر سورماؤں کے ہاتھ میں لمبے نیزے ہیں۔ یہ دشمنوں کی صفیں پلٹنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

دوسری طرف فرنجی فوج کا غالب حصہ پیادہ سپاہیوں پر مشتمل ہے۔ اور ویسے بھی یہ بات ہے سنہ 732ء کی۔ اس زمانے کے یورپ میں بھاری کیولری مفقود تھی، جس کی وجہ ایک بہت سادہ اور بظاہر معمولی نظر آنے والی چیز گھوڑے کی رکاب تھی۔ بغیر رکاب کے گھڑسوار فوجی میدانِ جنگ میں آسانی سے پینترا بدلنے اور دشمن پر موثر حملہ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے۔ قرونِ وسطیٰ کے یورپ کا ذکر آتے ہی ذہن میں زرہ پوش نائٹ کا خیال آتا ہے، لیکن کم لوگوں کو یہ معلوم ہو گا کہ یہ نائٹ دراصل عربوں نے یورپ میں متعارف کروایا تھا۔

الغافقی کے لیے فرانس نیا علاقہ نہیں ہے، گیارہ برس پیشتر وہ طولوس (Toulouse) کے معرکے میں السمح ابن المالک کی کمان میں لڑ چکا ہے۔ اس لڑائی میں اموی فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ خود السمح میدانِ جنگ میں آنے والے زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا تھا، لیکن اب الغافقی اپنے سپہ سالار کا بدلہ لینے 30 ہزار سواروں پر مشتمل فوج لے کر آن پہنچا ہے۔

الغافقی کے مدِ مقابل فرنجی فوج کی کمان چارلز مارٹل کے ہاتھ میں ہے، جس نے ہر صورت میں اپنی سرزمین کو عربوں سے بچانے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔

لیکن جو بات الغافقی اور چارلز مارٹل دونوں کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گی وہ یہ تھی کہ کچھ دیر بعد چھڑنے والی جنگ کو نہ صرف عہد ساز بلکہ تاریخ ساز قرار دیا جائے گا۔ الغافقی اور چارلز مارٹل نہیں جانتے تھے کہ اکتوبر کی اس سرد شام کے ایک ہزار برس بعد تاریخ دان ایڈورڈ گبن اس جنگ کے بارے میں لکھے گا کہ اس جنگ میں فتح عربوں کو :

’پولینڈ کے میدانوں اور سکاٹ لینڈ کے پہاڑی درّوں تک لے جاتی۔ دریائے رائن نیل یا فرات سے زیادہ گہرا نہیں ہے۔ عرب بحری بیڑا بغیر لڑے ہوئے ٹیمز کے دہانے پر آ کھڑا ہوتا۔ عین ممکن ہے کہ آج آکسفرڈ یونیورسٹی میں قرآن پڑھایا جا رہا ہوتا اور اس کے میناروں سے پیغمبرِ اسلام کی تعلیمات کی تقدیس بیان کی جا رہی ہوتی۔‘

میں نے تھوڑی آگے بڑھ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ سیاحوں کی سہولت کے فرانسیسی حکومت نے معلوماتی بورڈ نصب کر رکھے ہیں ۔ یہیں زمین پر شطرنج کی طرز کے 64 خانے بنے ہیں جن پر نہ صرف اس کارزار کی باتصویر تفصیلات رقم ہیں، بلکہ اسلام اور اسلامی تاریخ کے بارے میں معلومات درج کی گئی ہیں۔ بساط کے بیچوں بیچ ایک جھنڈا نصب ہے جس پر 732 کے ہندسے درج ہیں۔ معلوم نہیں اس جگہ کے بنانے والوں کو یہ معلوم تھا کہ نہیں کہ شطرنج ہندوستانیوں کی ایجاد سہی لیکن اسے عربوں ہی نے یورپ میں متعارف کروایا تھا۔

اور مئی کی اس چمکتی سہ پہر سے 1276 برس پہلے اسی جگہ تقریباً اسی وقت صدیوں پرانی شاہ راہِ روم پر سیلِ بلا کی مانند بڑھتی ہوئی زبردست فوج ظفر موج کو دیکھ کر الغافقی کی چھاتی فخر سے چوڑی ہو گئی۔ اس نے دل میں سوچا، کون ہے جو اس طوفانِ بلاخیز کے سامنے میدان میں ٹھہر سکے؟

طورس کا سونے چاندی سے مالامال شہر صرف پچاس میل کے فاصلے پر تھا، جب کہ پیرس بھی دو سو میل سے زیادہ دور نہیں تھاکہ الغافقی کے جاسوسوں نے اسے رومی شاہ راہ کے بائیں طرف پہاڑی پر واقع جنگل میں فرانسیسی فوج کے اجتماع کی اطلاع دی۔

لیکن یہ ذہن میں رہے کہ اس زمانے کا فرانس ایک اکائی نہیں تھا بلکہ فقیر کی گدڑی کی طرح چھوٹی چھوٹی اکثر باہم متحارب ریاستوں میں بٹا ہوا تھا جن کا سلسلہ ہسپانیہ کی سرحد سے لے کر انگلش چینل تک چلا گیا تھا۔ ان ریاستوں کے سردار پلک جھپکتے میں وفاداریاں، ہمدردیاں اور دشمنیاں تبدیل کرتے رہتے تھے۔

عبدالرحمٰن الغافقی یمن میں پیدا ہوا تھا۔ سپہ گری گھٹی میں پڑی تھی۔ اس نے برق رفتاری سے منزلوں پر منزلیں مارتے ہوئے ذاتی لیاقت اور فنونِ حرب میں مہارت کی بنا پر اموی اربابِ اختیار کی نظروں میں اہم مقام حاصل کر لیا تھا۔ جب شمالی افریقہ کے گورنر موسیٰ بن نصیر نے طارق بن زیاد کے سپین پر چڑھائی کرنے کے ایک برس بعد خود ایک بڑی فوج لے کر 712ء میں سپین کا رخ کیا تو عبدالرحمٰن اس فوج کا حصہ تھا۔ جب 721ء میں طولوس کے باہر السمح شدید زخمی ہو گیا تو اس نے عبدالرحمٰن ہی کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ چوں کہ اموی خلفا کے دستور کے مطابق فوج کا سپہ سالار ہی علاقے کا امیر ہوتا تھا، اس لیے عبدالرحمٰن جب بچی کچھی فوج لے کر قرطبہ لوٹا وہ اندلس کا امیر بن گیا۔

تاہم اس زمانے میں اندلس شمالی افریقہ کے گورنر کے ماتحت تھا جو عبدالرحمٰن کو پسند نہیں کرتا تھا، اس لیے اس نے اس عہدے پر ابن سہیم الکلبی کو تعینات کر دیا اور عبدالرحمٰن کو جنوب مغربی فرانس کے علاقے ناربون کا امیر مقرر کردیا جو اس زمانے میں اندلس کا ایک چھوٹا سا صوبہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ گورنر کو عبدالرحمٰن کی یہ عادت پسند نہیں تھی کہ وہ میدانِ جنگ میں دشمن کے زخمی سپاہیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا۔ عبدالرحمٰن خلیفہٴ دوم عمر فاروق کے صاحب زادے سے بھی قریب تھا، اور پرہیزگاری اور ایمان داری کے ساتھ ساتھ شجاعت اور جنگی سوجھ بوجھ کی وجہ سے ہر دل عزیز تھا۔

دو برس قبل خود اموی خلیفہ ہشام ابن عبدالملک نے الغافقی کو اندلس کا امیر مقرر کیا تھا۔ اس کے ذمے وہ کام پورا کرنا تھا جو السمح نے ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ الغافقی نے اس مہم کے لیے خاص طور پر اپنے آبائی وطن یمن سے وفادار کمان دار منگوائے تھے، جن کی بہادری اور جنگی لیاقت پر اسے کامل بھروسا تھا۔

عبدالرحمٰن الغافقی نے اپنی فوج کو فرانسیسی فوج کے بالمقابل پہاڑی کے دامن میں صف بندی کا حکم دے دیا۔ اس نے دیکھا کہ فرانسیسی فوجی پیادہ درختوں کے قریب سینے سے لے کر گھٹنوں تک آتی ہوئی بھاری چوبی ڈھالیں اٹھائے، قدیم رومی انداز میں مربع کی شکل میں تلواریں سونتے، صفیں باندھے تیار کھڑے ہیں۔اگرچہ گھنے درختوں کی وجہ سے دشمن کی صحیح تعداد کا اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا، لیکن الغافقی پھر بھی زیادہ فکر مند نہیں تھا، بھلا گھڑ سوار اور پیادہ فوج کا کیا مقابلہ؟ الغافقی کے نیزہ بردار برق رفتارگھڑسوار پل بھر میں پیادہ فوجوں کی صفیں الٹنے کے فن میں طاق تھے۔

فرانسیسی جرنیل چارلز مارٹل کو شاید آکسفرڈ یونیورسٹی کے میناروں کی اتنی فکر نہ ہو لیکن وہ یہ بات یقیناً جانتا تھا کہ اس مسلم فوج کا راستا روکنا بہت ضروری ہے۔ اس نے سن رکھا تھا کہ 21 برس پیشتر طارق بن زیاد کی فوج نے صرف ایک برس کے اندر اندر پونے پانچ لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط جزیرہ نما آئیبریا کو روند کے رکھ دیا تھا۔ سوائے راڈرک کے ساتھ ایک معرکے کے، بقیہ جزیرہ نما نے بغیر لڑے مسلمانوں کی بالادستی کو قبول کر لیا تھا۔وہ یہ بھی جانتا تھا کہ مسلمانوں نے تاریخ کے پلک جھپکتے ہی سنکیانگ اور پنجاب سے لے کر مغرب میں بحرِ اوقیانوس تک اپنے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔

چارلز مارٹل اور اس کی فوج مسلسل بیس سال سے فرانس اور شمالی سپین کے راج واڑوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں تھے۔ باراں دیدہ جرنیل کو اچھی طرح سے علم تھا کہ کھلے میدان میں عرب فوج کا مقابلہ کرنا خودکشی کے مترادف ہے، اسی لیے اس نے رومی شاہ راہ سے گریز کرتے ہوئے اپنی فوجیں اس پہاڑی پر پھیلے جنگل پر مرکوز کر لی تھیں۔ یہاں اس کی فوج اونچائی پر تھی، چناں چہ مسلمان گھڑ سوار یلغار نہیں کر سکتے تھے۔ مزید یہ کہ اس نے اپنے دستے جنگل کے اندر پھیلا رکھے تھے، جس سے ایک تو اس کی فوج کی تعداد کا درست اندازہ لگانا مشکل تھا، دوسرے درختوں کے اندر گھوڑے بالکل بے اثر ہو گئے تھے۔

الغافقی نے چارلز کی حکمتِ عملی بھانپ لیا تھا، اس لیے اس نے جنگ کے پہلے چار دن تک معمولی جھڑپوں ہی پر اکتفا کی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ سردیوں کا موسم تیزی سے بڑھا چلا آ رہا تھا، ادھر خوراک کے ذخیرے بھی اتنی ہی سرعت سے ختم ہو رہے تھے، ساتھ ہی ساتھ رمضان کی آمد آمد تھی۔ الغافقی اپنے دارالحکومت قرطبہ سے ایک ہزار میل دور تھا، اس لیے اس جنگ کو لامتناہی طول دینا اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔

چناں چہ جنگ کے چوتھے روز 25 اکتوبر بہ مطابق پہلی رمضان کو الغافقی نے بھرپور حملہ کرنے کی ٹھان لی۔ صبح پو پھٹتے ہی اس نے صفوں کو ترتیب دینے کا حکم صادر کر دیا۔ میمنہ نے دائیں طرف سے پیش قدمی شروع کی تو میسرہ نے بائیں جانب سے۔ قلب دونوں طرفین سے تھوڑا پیچھے رہا۔ یہ عربوں کی مشہور و معروف اور آزمودہ ہلالی تشکیل تھی، جس کے ذریعے انھوں نے ماضی میں غنیم کے بھاری لشکروں کو درمیان میں گھیر کر درانتی کی طرح کاٹ ڈالا تھا۔

ان ہراول دستوں کے پیچھے پیادہ فوج بھی حرکت میں آ گئی۔ یہ سپرانداز دستے مقدمہ کہلاتے تھے۔ ان کے عقب میں مقاتلہ تھا۔ لوہے کے بھاری خود پہنے اورزنجیر دار زرہوں میں ملبوس ان دستوں کا کام یہ تھا کہ جب گھڑسوار دشمن کی صفیں توڑ دیں تو یہ جا کر بچی کھچی پیادہ سپاہ کو درہم برہم کر دیں۔

تھوڑی ہی دیرمیں ایسا تاریخ ساز معرکہ بپا ہونے والا تھا جس پر دنیا بھر کے مستقبل کا انحصار تھا۔

باقی آئندہ ۔۔۔
 
Top