آخری منصوبہ 1
چھوٹے قد کا وہ آدمی ایک لمبی سی کار سے اترا سامنے ایک عظیم الشان بلڈنگ تھی جس کی سب سے اونچی منزل کو دیکھنے کے لیے اگر سر اوپر اٹھایا جائے تو شاید آدمی پیچھے گر پڑے مگر ا س شخص کو بلڈنگ کی اونچائی سے کوئی سروکار نہ تھا وہ تو تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا آٹومیٹک دروازے سے اندر داخل ہوگیا لفٹ میں داخل ہوکر اس نے 58 ویں منزل کا بٹن دبایا اور سبک رفتار لفٹ تیزی سے اوپر چڑھنے لگی58 ویں منزل پر اتر کر وہ راہداری میں آگے بڑھتا گیا اور کمرہ نمبر 420 کے دروازے پر رکا ا سنے اپنی جیب سے کارڈ نکال کر کارڈ مشین میں لگایا تو دروازہ کھل گیا اندر ایک لمبی چوڑی میز کے پیچھے بیٹھا ہوا چالاک قسم کا ادھیڑ عمر آدمی اسے دیکھ کر چونک اٹھا
’تم اس وقت!‘ اس نے حیرت سے پوچھا
’جی سر میں نے ایک ایسا منصوبہ ترتیب دیا کہ پھر خود پر قابو نہ رکھ سکا اور فورا آپ کے پاس دوڑا آیا‘ پستہ قد والا بولا
’ایسی بھی کیا خاص بات ہے اس میں‘ چالاک شخص عام سے لہجے میں بولا
’سر آپ خود پڑھ کر دیکھ لیں یہ برسوں پر محیط ایک ایسا منصوبہ ہے کہاگر اس پر پوری طرح عمل ہوگیا تو پھر اس کے بعد ہمیں دنیا پر قبضہ کرنے کے لیے پھر کچھ اور نہیں کرنا پڑے گا‘پستہ قد والے نے کہا
’تم تو بہت بڑھ چڑھ کر باتیں بنا رہے ہو لاؤ دکھاؤ ذرا اپنا منصوبہ‘
پستہ قد والے نے اپنے ہینڈ بیگ سے کاغذوں کا موٹا سا پلندہ نکالا اور اس کے حوالے کیا چالاک شخص نے سرسری انداز میں اسے پڑھنا شروع کیا مگر چند صفحات پڑھنے کے بعد وہ چونکا اور پھر غور سے پڑھنے لگا پستہ قد والا اس کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے رہا تھااس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اب چالاک شخص کے چہرے پر جوش کے آثار نمودار ہوچکے تھےوہ منصوبہ پڑھنے میں یوں مگن تھا کہ اسے اب کسی چیز کا ہوش نہیں تھا پھر کئی گھنٹوں بعد اس نے وہ مسودہ میز پر رکھا اس کے چہرے پر حیرت کے آثار تھے
’یو یو آر جینیئس میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا منصوبہ بھی بنایا جا سکتا ہے‘ چالاک شخص بولا
’تھینک یو سر مجھے امید ہے کہ اس بار مجھے میری امیدوں سے بڑھ کر معاوضہ ملے گا‘
’ہاں ہاں یقینایوں بھی ا س منصوبے کے بعد ہمیں مزید کوئی پروگرام بنانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گیمگرتم جانتے ہو کے اس منصوبے میں سب سے بڑی شرط رازداری ہےہمیں ساری دنیا کو بے وقوف بنانا ہوگا اگر کسی کو ذرا بھی بھنک پڑ گئی کہ یہ ہمارا بنایا ہوا منصوبہ ہے تو ساری دنیا ہمارے خلاف ہوجائے گی‘
’یہ تو ہے سر ہمیں اس سارے معاملے کو راز میں رکھنا ہوگا آخر کئی حکومتیں اس منصوبے کی لپیٹ میں آجائیں گیاوراور یہ عظیم بلڈنگ بھی تو اس منصوبے میں استعمال ہوجائے گی‘ وہ مسکرایا
’ہاں اور اس معاملے کو راز میں رکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کم سے کم لوگ اس سے واقف ہوںاس لیے اس منصوبے کی خاطر تمہیں بھی قربانی دینا ہوگی‘ اچانک چالاک شخص کا لہجہ بدل گیا
’قربانی کیا مطلب !؟‘ پستہ قد والا چونک اٹھا
’اپنی قربانی تم اس منصوبے کی خاطر قربان ہوجاؤ یوں بھی اس منصوبے کی تکمیل تک ہمیں بہت کچھ قربان کرنا ہوگا‘ اچانک چالاک شخص کا ہاتھ میز کے نیچے سے نکلا تو اس میں پستول تھا
’یہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں سر؟‘پستہ قد والا خوفزدہ لہجے میں بولا اور اچھل کر کرسی سے کھڑا ہوگیامگر ساتھ ہی پستول نے شعلہ اگلا اور پستہ قد والا اپنا سینہ پکڑے ہوئے گرتا چلا گیامرتے وقت اس کی آنکھوں میں خوف سے زیادہ حیرت تھی شدید حیرتشاید آج تک اپنے کسی منصوبے کا اسے اس انداز میں معاوضہ نہیں ملا ہوگا
’اب اس منصوبے سے پوری دنیا میں صرف میں واقف ہوںاور میرے سوا کوئی نہیں جان پائے گا کہ اب دنیا میں کیا کھیل شروع ہونے والا ہے ایک ایسا کھیل جس میں استعمال ہونے والے مہرے خود بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ وہ کیا کر رہے ہیں ‘ چالاک شخص کے چہرے پر ایک مکروہ مسکراہٹ تھی پھر اس نے فون کا ریسیور اٹھایا اور بولا ’صدر سے بات کراؤ‘
******************* ******************** ********************** **********************
اس چھوٹے سے مگر خوبصورت گھر میں اس وقت بہت سے لوگ جمع تھےایک لمبی سی داڑھی والا نوجوان ان سب کی نگاہوں کا مرکز تھاپھر اس کے لب ہلے
’دوستو آپ جانتے ہیں کہ ہمارے دوست ملک افغان پور پر دشمن نے عرصے سے قبضہ کر رکھا ہےافغان پور کے باشندے انتہائی تنگ دستی کے عالم میں بھی دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں دنیا میں کوئی بھی ان کی مدد نہیں کر رہا ہم سب مسلمان عیاشیوں میں پڑے ہوئے ہیںذرا سوچیں کل یہ سب کچھ ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے‘
’آپ ٹھیک کہتے ہیں عامر بن ہشام‘ ایک نوجوان بولا
’ اس لیے ساتھیو میں نے سوچا ہے کہ ہمیں ان کی مدد کرنا چاہیےآپ جانتے ہیں کہ میں ایک بہت بڑے کاروبار کا مالک ہوں اﷲ نے مجھے اتنا کچھ دیا ہے تو اب اس کا وقت آچکا ہے کہ اسے اﷲہی کی راہ میں خرچ دیا جائے‘ عامر بن ہشام نے کہا
’کیا آپ افغان پور والوں کی اسلحے سے مدد کرنا چاہتے ہیں؟‘دوسرے نوجوان نے پوچھا
’صرف اسلحے سے نہیں میں خود بھی وہاں جا کر ان کے شانہ بشانہ دین کے دشمنوں کے خلاف لڑنا چاہتا ہوںمیں جانتا ہوں کہ اس طرح شاید میری حکومت میرے خلاف ہوجائے مگر مجھے اس کی کوئی پروا نہیں آپ میں سے جو بھی میرا ساتھ دینا چاہیں مجھے خوشی ہوگی مگر میں کسی کو مجبور نہیں کروں گا کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ وہاں ہمیں صرف شہادت ہی ملے‘عامر بن ہشام بولے
’ہم سب بھی شہادت کی آرزو رکھتے ہیں اور دل و جان سے آپ کے ساتھ ہیں‘ملی جلی آوازیں ابھریں
’تو پھر ٹھیک ہے میں پہلے اس سلسلے میں سارا بندوبست کرتا ہوں پھر آپ لوگوں کو آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں بتاؤ ں گا‘عامر بن ہشام نے کہا
******************* ******************** ********************** **********************
یہودیوں کے ناجائز ملک گبرائیل کا صدر الجھن کے علم میں چالاک شخص کی طرف دیکھ رہا تھا
’میں آپ کی بات سمجھا نہیں مسٹر پولس‘صدر نے کہا
’آپ کو بات سمجھنے کی ضرورت بھی نہیںبس جو میں کہ رہا ہوں وہ کرتے جائیں‘چالاک شخص پولس نے کہا
’لیکن اشریکہ کا صدر مجھ سے پوچھے گا کہ ہم عامر بن ہشام کی مدد کیوں کریںایک مسلمان کی مدد کر کے ہمیں کیا ملے گا؟‘صدر نے سوالیہ لہجے میں کہا
’یہ باتیں آپ نہیں سمجھ سکتےیہ سب ایک بہت عظیم منصوبے کا حصہ ہےاس کے اثرات کئی سالوں بعد پتہ چلیں گے جب مسلمان ہمارے جال میں پھنس چکے ہوں گے اور اشریکہ کے صدر کی آپ فکر نہ کریں وہ تو ہماری مٹھی میں ہے اس کے ملک پر اس کا نہیں بلکہ ہمارا حکم چلتا ہےہم ایک اشارے پر اشریکہ کی حکومت بدل سکتے ہیں‘پولس مغرور لہجے میں بولا
’ ایک تو یہ بڑی مصیبت ہے کہ آپ منصوبے کے بارے میں کچھ بتاتے نہیںاس طرح میں الجھن میں ہوں‘صدر نے کہا
’اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی کو اس کا پتہ نہ ہواسی لیے تو میں نے اس کے خالق ایلن کو بھی ہلاک کردیا حالانکہ وہ میرا بڑا پرانا ساتھی تھادیکھیں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں صدر آتے جاتے رہتے ہیں مگر ہماری خفیہ سروس کبھی نہیں بدلے گی اس لیے منصوبہ جاننے کی ضد نہ کریںاور یہ راز میرے سینے میں ہی دفن رہنے دیں‘ پولس نے کہا
’اور اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو یہ منصوبہ تو پھر ادھورا رہ جائے گاکیونکہ کوئی اور اس سے واقف نہیں‘صدر نے کہا
’ایسا نہیں ہوگا میں اس کا بندوبست کرچکا ہوںآپ ا س سلسلے میں پریشان نہ ہوں اور جیسا میں کہ رہا ہوں ویسے کریںفورا اشریکہ کے صدر کو فون کریں اور اس سے کہیں کہ وہ عامر بن ہشام کی ہر طرح مدد کرے تاکہ وہ افغان پور سے قابض فوج کو بھگا سکے‘ پولس نے کہا اور صدر نے سر ہلاتے ہوئے فون کا ریسیور اٹھایا اور اشریکا کے صدر کے نمبر گھمانے لگا
’ہیلو میں گبرائیل کا صدر ہوں‘ وہ بولا
’ اوہ آپ کہیے کیسے یاد کیا؟‘ اشریکا کے صدر نے پوچھا
’سنیے‘ گبرائیل کا صدر اسے تفصیل بتانے لگا
’مگر یہ سب کرنے کا فائدہ؟‘ اشریکا کے صدر نے حیرت سے پوچھا
’فائدے نقصان کا صرف مسٹر پولس کو پتہ ہے‘گبرائیل کے صدر نے جواب دیا
’اوہ پولس!‘ اشریکا کے صدر کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور اس کے ہونٹ نفرت زدہ انداز میں سکڑ گئے
’ٹھیک ہے میں بندوبست کرتا ہوں‘وہ بولا اور ریسیور رکھ دیا
’ نہ جانے ہمیں اس منحوس سے کب نجات ملے گی اب اگر میں نے یہ سب نہ کیا تو یہ یقینا میرا تختہ الٹ دے گاہر محکمے میں یہودی موجود ہیں جو صرف پولس کی بات مانتے ہیںمجھے یہ سب کرنا ہی ہوگا ورنہ کوئی اور آکر کردے گا‘ اشریکا کا صدر بڑبڑایا
******************* ******************** ********************** **********************
عامر بن ہشام نے حیرت سے اس کی بات سنی ا سکی بات پر یقین کرنا خاصا مشکل کام تھا
’میری سمجھ سے باہر ہے کہ اشریکہ میری مدد کیوں کرنا چاہتا ہے‘عامر بن ہشام بولے
’آپ جانتے ہیں کہ افغان پور پر لاس نے قبضہ کر رکھا ہے اور ہمارا دشمن ملک ہے کیونکہ ہم کمیونسٹوں کو پسند نہیں کرتےافغان پور پر کمیونسٹوں کا قبضہ ہمیں گوارا نہیںاس کے مقابلے میں ایک مسلمان ریاست ہمیں زیادہ پسند ہے مگر ہم ڈائرکٹ لاس سے جنگ مول نہیں لے سکتے اس طرح عالمی جنگ چھڑ جائے گی ہم جانتے ہیں کہ آپ جہاد کے لیے افغان پور جارہے ہیںہم آپ کی روپے اور اسلحے سے مدد کریں گے آپ افغان پور کے لوگوں کو ٹرینڈ کریں اور وہاں سے لاس کو نکال دیں ‘ عامر بن ہشام کے سامنے بیٹھا اشریکا کا سفیر بولا
’اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس کے بعد اشریکا وہاں قبضہ نہیں کرلے گا‘عامر بن ہشام بولے
’ہم تو ڈائرکٹ اس معاملے میں انوالو ہوں گے ہی نہیںہم آپ کو اسلحہ وغیرہ بھی افغان پور کے پڑوسی اسلامی ملک پاک کے ذریعے دیں گے‘ سفیر نے بتایا
’کیا پاک کی حکومت اس پر راضی ہے؟‘ عامر بن ہشام نے پوچھا
’جی ہاں ہم ان سے بات کر چکے ہیںوہ بھی افغان پور پر لاس کے قبضے سے پریشان ہیں کیونکہ اس طرح لاس براہ راست پاک کی سرحدوں تک آپہنچا ہےیوں ہم تینوں ہی لاس کے قبضے سے پریشان ہیں اب اگر آپ ہمارا ساتھ قبول کریں تو آپ کو وافر مقدار میں اسلحہ مل سکتا ہے اور آپ جلد ہی لاس کو افغان پور سے نکال باہر کرسکتے ہیںا س میں ہم سب کا فائدہ ہے‘ سفیر عامر بن ہشام کو غور سے دیکھتے ہوئے بولا جو شش و پنج میں مبتلا ہو چکے تھے
******************* ******************** **********************