آخرت فراموشی

…مشتاق احمد خان…
حضرت شفیق بلخیؒ کہتے ہیں۔ میں ایک بار حج پر گیا۔ حج کے لیے مکّہ میں قیام کے دوران میری ایک شخص سے اچھی شناسائی ہوگئی۔ میں دیکھتا کہ اس کے روز و شب کا بیشتر حصہ حرم میں گزرتا۔ طواف کعبہ۔ نوافل۔ تلاوت۔ اذکار۔اس کا عالم جذب دیدنی تھا۔ ایک دن میں نے محسوس کیا کہ اس کی حالت متغیر ہے۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ کسی نے اس کی پوٹلی سے اس کا زاد راہ چرالیا ہے۔ یہ یقینا پریشان کن صورتحال تھی۔ میں نے اسے دلاسا دیا کہ اللہ مسبب الاسباب ہے۔ اس پریشانی کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ میں نے اسے اپنے طور پر کچھ تعاون کی پیشکش کی تو اس نے کہا، ایسی کوئی جلدی نہیں ہے۔ ضروری ہوا تو آپ سے ضرور تعاون لوں گا۔ مجھے اس کے صبر پر رشک آیا، لیکن مجھے حیرت تھی اس کی آنکھوں کی وحشت میں کوئی کمی نہیں ہوئی ۔ چند گھنٹوں بعد میں نے اسے ایک علیحدہ گوشے میں سر بسجود پایا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اس کا پورا بدن کانپ رہا تھا۔ دبی دبی سسکیوں کے دوران گھٹی گھٹی آواز میں وہ کہہ رہا تھا۔ ’’یا اللہ ! میںنے چور کو آگ میں جلتے دیکھا ہے۔ یا اللہ میں نے اسے معاف کیا ۔ تو بھی اسے معاف کردے۔ اسے آگ سے بچا لے۔ اسے راہ راست دکھا دے‘‘۔
صرف کراچی ہی نہیں، پورا پاکستان آگ میں جل رہا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ۔ دہشت گردی۔بم دھماکے۔ اغواء برائے تاوان۔ بنک ڈکیتیاں۔ بنک سے رقم لے کر نکلنے والوں سے رقم چھیننا اور اس کشمکش میں قتل۔ کاریں اور موٹر سائیکلیں ہی نہیں، موبائل فون چھیننے کی کوششوں کے دوران مزاحمت پر بھی قتل۔ انفرادی جرائم۔ اجتماعی جرائم۔ تنظیموں کی پشت پناہی کے ساتھ کیے گئے جرائم۔ ریاستی اداروں کے جرائم۔ ریاستی اداروں کی ہٹ دھرمی اور ایوان عدل کی بے بسی۔ ایک عجیب رواج چل نکلا ہے۔ جرم کو رد عمل کا نام دینے کا۔ ہر مذہب، تاریخ، تہذیب، معاشرت، اور قانون رد عمل کے امکانات کو تسلیم کرتا، اسے جواز عطا کرتا اور اس کی وجہ سے جرم کی سزا میں نرمی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ لیکن کیا ایسا ردعمل بے لگام ہوتا ہے۔ گالی کے ردعمل میں ضرب لگادینا۔ ضرب کے مقابلے میں ضرب شدید لگادینا یا لگ جانا۔ اپنی، اپنے اہل خانہ یا اپنے گردوپیش میں موجود کسی فرد کے مال، جان یا عزت کو بچانے کی کوشش میں مقابل سے ٹکراجانا۔ اسے کہتے ہیں فوری رد عمل۔ کسی جھگڑے کے دوران وہاں سے ہٹنا۔ ہتھیار حاصل کرنا اور پھر واپس آکر اس کا استعمال کرنا۔ دنیا کے کسی قانون میں رد عمل کی تعریف میں نہیں آتا۔
جہاں تک بدلے کا تعلق ہے وہ اتنا ہی ہے جتنا اصل جرم۔ بدلے کے نام پر اس سے زیادہ جو کچھ ہے صرف جرم ہے، کھلا جرم۔ اور بدلہ بھی صرف اس سے جو اصل مجرم ہے۔ نہ اس کے ماں باپ، بھائی بندوں، رشتہ داروں سے۔ نہ اس کے قبیلے والوں سے۔ ہم زبان ہونا بڑا دائرہ ہے اور ہم مذہب ہونا اور بھی بڑا دائرہ ہے۔ لیکن ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے۔
بے نظیر بھٹو قتل کی جاتی ہیں۔ بے شک یہ ایک بڑا سانحہ ہے۔ ایک بڑ اجرم ہے۔ لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا اسے رد عمل کہنا اس سے بھی بڑ اجرم ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری املاک جلانا۔ دفترو ں سے ائرکنڈیشنر، کمپیوٹرز، کرسیاں میزیں اٹھا کر لے جانا ۔ دکانیں اور بینک لوٹنا۔ اے ٹی ایم توڑنا۔کاریں موٹرسائیکلیں نذر آتش کرنا۔ ہائی وے پر رواں دواں ٹرالروں سے ان پر لدا ہوا مال لوٹ لے جانا اور پھر ٹرالروں کو نذر آتش کردینا۔ لوگوں کو کاروبار اور نقل و حرکت کی آزادی سے محروم کر دینا۔ کیا یہ ردعمل ہے۔ کون سی اخلاقیات، کون سی تہذیب، کہاں کا قانون اسے ردعمل تسلیم کرے گا۔ اور آخر کیوں؟۔ لیکن ہمارے ہاں تو اب یہ پیمانہ بن گیا ہے۔
1100322667-1.jpg

1100322577-1.jpg

الطاف حسین کے بھائی اور بھتیجے کے قتل پر ہی نہیں، عمران فاروق کے قتل پر ہی نہیں، ہر اہم اور غیر اہم فرد کے قتل پر گاڑیوںکا جلایا جانا۔ کاروبار کا بند کرانا۔ اور لوگوں کی جان و مال کو خطرات میں مبتلا کرنا ایم کیو ایم کا وتیرہ ہے۔ ایک زمانے میں ہم دعا کرتے تھے کہ اللہ الطاف بھائی کو عمر خضر عطا کرے لیکن جب بھی انہیں واپس بلانے کا فیصلہ کرے، انہیں فطری طریقے سے واپس بلائے ورنہ اہل پاکستان کی خیر نہیںہوگی۔ اب الطاف بھائی نے یہ کہہ کر کہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ انہیں اس صفائی سے قتل کرے گی کہ کسی کو قتل کا شبہ بھی نہیں ہوگا جب کہ وہ ہوگا قتل ہی۔ کارکنان کو ایک موقع عطا کردیا ہے کہ وہ ہر حالت میں انہیں’’شہید‘‘ کے درجے پر فائز کریں ۔ چاہے اہل پاکستان پر کچھ بھی کیوں نہ گزر جائے۔ لیکن ایم کیو ایم پر ہی کیا موقوف۔ کوئی عالم دین قتل ہوجائے تب بھی حالات کچھ مختلف نہیں ہوتے، فرق رد عمل کے بارے میں رویے کا نہیں ہے۔صرف رد عمل کی صلاحیت کا ہے۔ کیا سندھ کیا پنجاب۔ کیا خیبر پختونخوا کیا بلوچستان۔ انیس بیس کے فرق کے ساتھ ایک جیسے رویے رکھنے والوں کی گرفت میں ہیں۔ گزشتہ دنوں خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے ایک ممبر صوبائی اسمبلی کا قتل ہوا تو رد عمل میں ایک بازار کی کئی دکانیں جلادی گئیں۔ کئی گھروں پر حملے کیے گئے۔ اس قتل کا شبہ سابق ایم پی اے پر کیا جارہا تھا جن کا تعلق جے یو آئی ایف سے ہے۔ ان سے بقول ان کے انتخابی شکست برداشت نہیں ہوئی۔ طالبان پاکستان سے پوچھو کہ پاکستان بھر میں دہشتگردی کی کاروائیوں کا کیا جواز ہے۔ جواب ملے گا، یہ ڈرون حملوں کا رد عمل ہے۔ اسے کہتے ہیں ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ امریکی ڈرون بھی پاکستانیوں کوماریں اور ڈرون حملوں کا شکار ہونے والے بھی۔ ان سے کہو کہ رد عمل دکھانا ہے تو امریکی مفادات پر ضرب لگائو۔ جواب ملتا ہے پاکستانی حکومت اور فوج امریکی مفادات کی نگہبان ہیں اس لیے یہ زد پر ہیں۔ پوچھو فلاں مسجد پرآپ نے حملے کی ذمہ داری کیسے قبول کرلی۔ جواب دیں گے وہاں فلاں جرنیل نماز پڑھ رہا تھا اس لیے… لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔

رد عمل کی ایک بھیانک صورت کراچی میں وقوع پذیر ہوئی ۔ جہاں ایک بس میں سوار مزدوروں میں سیٹ پر بیٹھنے کے حوالے سے جھگڑا ہوا۔ مضروب مزدور نے اپنے کچھ دوستوں کو ملایا۔ اگلے دن بس میں سوار ان مزدوروںکو جن سے جھگڑا ہوا تھا ۔ بس سے اتارا۔ اور دور کہیں لے جا کر قتل کردیا۔ الامان والحفیظ۔ سیٹ پر بیٹھنے کے جھگڑے کا ردعمل تین افرادکا قتل۔یہ جرم اپنی جگہ… اس سے بڑا مذاق یہ ہوا کہ فاروق ستار نے اسمبلی فلور پر اس قتل کو ایم کیو ایم کے کارکنان کا قتل قرار دے دیا۔ ممکن ہے مقتولین کا تعلق ایم کیو ایم سے ہو، لیکن نہ جھگڑے کی بنیاد سیاسی تھی نہ لسانی۔ لیکن فاروق ستار نے جان بوجھ کر سوچا سمجھا جھوٹ بولا اور اسمبلی کے فلور پر اگلے دن یوم سوگ کا اعلان کردیا۔ نواز شریف کو بحیثیت وزیر اعظم پہلے دن ہی ایک ایسے یوم سوگ کا سامنا تھا جس کی بنیاد قطعاً وہ نہیں تھی جو بیان کی گئی تھی۔
لطف کی بات یہ ہے کہ صرف مجرمانہ کاروائی کرنے والے ہی نہیں صرف سیاسی رہنما اور انتظامی افسران ہی نہیں ، عام لوگ بھی اس ردعمل کے حق میں دلائل تراشتے اور اس کے جواز کو بیان کرتے رہتے ہیں۔ تو کیا ہمارا پورا معاشرہ اللہ کے خوف سے بے نیاز ہوگیا۔ کیا ہم سب نے آخرت کو فراموش کردیا۔ کیا فیصلے کا دن ہمارے لیے بے معنی ہوگیا۔ کیا ہم جہنم کی آگ سے بے نیاز ہوگئے۔ حضرت شفیق بلخیؒ کے مشاہدے میں آنے و الا شخص تو اپنے نقصان کو فراموش کرکے ’’چور‘‘ کے لیے نار جہنم سے نجات کی دعا میں مشغول ہوگیا تھا، کیاہم خود نار جہنم سے بچنے کے لیے جرم کو رد عمل کہنے کے جرم سے باز نہیں آسکتے۔
 
Top