فیض آج کی رات ۔ فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
آج کی رات
آج کی رات سازِ دلِ پر درد نہ چھیڑ
قول الفت کا جو ہنستے ہوئے تاروں نے سنا
بند کلیوں نے سنا، مست بہاروں نے سنا
سب سے چھپ کر جسے دو پریم کے ماروں نے سنا
خواب کی بات سمجھ اس کو حقیقت نہ بنا

اب ہے ارمانوں پہ چھائے ہوئے بادل کالے​
پھوٹنے جس میں لگے ہیں مرے دل کے چھالے
آنکھ بھر آئی چھلکنے کو ہیں اب یہ پیالے
مسکرائیں گے مرے حال پہ دنیا والے

بے بسوں پر یہ ستم خوب زمانے نے کیا​
کھیل کھیلا تھا محبت کا ادھورا ہی رہا
ہائے تقدیر کہ تقدیر سے پورا نہ ہوا
ایسے آنی تھی جدائی مجھے معلوم نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کی رات
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
دکھ سے بھر پور دن تمام ہوئے
اور کل کی خبر کسے معلوم؟
دوش و فردا کی مٹ چکی ہیں حدود
ہو نہ ہو اب سحر، کسے معلوم؟
زندگی ہیچ! لیکن آج کی رات
ایزدیت ہے ممکن آج کی رات
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ

اب نہ دہرا فسانہ ہائے الم​
اپنی قسمت پہ سوگوار نہ ہو
فکرِ فردا اتار دے دل سے
عمرِ رفتہ پہ اشکبار نہ ہو
عہدِ غم کی حکایتیں مت پوچھ
ہو چکیں سب شکایتیں مت پوچھ
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ

کلام: فیض احمد فیضؔ
آواز: ملکۂ ترنم نورجہاں
 
Top