آج کا کالم (فضل ربی راھی)

سندباد

لائبریرین
فوج کو نوشتہ دیوار پڑھنا چاہئے
تحریر: فضل ربی راہی
جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں آپریشن کے بعد ملک میں امن و امان کی مجموعی صورتِ حال ہر لمحہ مخدوش سے مخدوش تر ہوہوتی جارہی ہے۔ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حملوں میں شدت آگئی ہے اور یوں لگ رہا ہے جیسے ملک میں دہشت اور خوف نے ہر طرف اپنے خونین پنجے گاڑ رکھے ہوں۔ سوات میں سکیورٹی فورسز پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ اس کا آغاز 3 جولائی کو مٹہ (سوات) میں پولیس سٹیشن پر راکٹ حملوں سے ہوا تھا جس میں ایک پولیس اہل کار جاں بحق جب کہ کئی افراد زخمی ہوگئے تھے۔ 4 جولائی کو پولیس لائن منگورہ میں ریموٹ بم دھماکہ میں 6 افراد جاں بحق اور ڈی پی او سوات مظہر الحق سمیت 9 افراد شدید زخمی ہوگئے۔6 جولائی کو مٹہ پولیس اور ایف سی کے قافلے پر بم حملہ میں ڈی ایس پی اور ایس ایچ او سمیت 4 پولیس اہل کار زخمی ہوگئے۔ 6 جولائی کو چک درہ میں پاک فوج کے کانوائے پر حملہ میں 4 فوجی جوان جاں بحق ہوئے جن میں ایک میجر اور ایک لیفٹننٹ شامل تھے۔ 12جولائی کو منگورہ کے تختہ بند بائی پاس روڈ پر ایک خودکش حملہ میں 3 پولیس اہل کاروں سمیت 6 افراد ہلاک ہوگئے۔ اسی دن کبل کے علاقہ ہزارہ میں بم دھماکے سے رابطہ پل کا ایک حصہ تباہ ہوگیا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔15 جولائی کو ضلع سوات کے علاقہ مٹہ میں سمبٹ کے مقام پر فوجی کانوائے پر خودکش حملہ اور ایک گاڑی کی بارودی سرنگ سے ٹکرانے کی وجہ سے 14 سکیورٹی اہل کاروں سمیت 20 افراد جاں بحق اور 40 سے زائد زخمی ہوگئے۔ اسی واقعے میں 6 مکانات اور متعدد دکانیں بھی تباہ ہوگئیں۔ یہ تو سوات میںمسلسل ہونے والے خونی واقعات کی ایک جھلک تھی لیکن اس دوران صوبہ کے دوسرے مقامات پر بھی سکیورٹی اہل کاروں پر حملے کئے گئے جن میں درجنوں اہل کار جاں بحق ہوچکے ہیں۔14 جولائی کو میران شاہ میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر خود کش حملہ میں 24 اہل کار جاں بحق اور 29 زخمی ہوگئے۔ 15 جولائی کو صوبہ سرحد کے ایک اور مقام ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس لائن میں خود کش حملہ میں 20 افراد سے زائد جاں بحق جب کہ 50 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔ اسی دن شمالی وزیرستان میں مقامی طالبان نے حکومت سے امن معاہدہ کے خاتمے کا اعلان بھی کیا۔ جس کے نتیجے میں وزیرستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں میں مزید شدت آنے کا امکان ہے۔
ان تمام واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک خصوصاً صوبہ سرحد میں حالات نہایت کشیدہ ہیں اور اس کشیدگی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ جامعہ حفصہ اور لال مسجد کا معاملہ طاقت کے ذریعے حل کرنے کی وجہ سے مذہبی حلقوں میں حکومت کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور موجودہ حالات اور واقعات اسلام آباد سانحہ کا ردِ عمل ہیں۔ ان خیالات کا اظہار وزیرِ داخلہ آفتاب احمد شیرپاؤ نے بھی کیا ہے کہ سوات اور ڈی آئی خان کے دھماکوں کا تعلق لال مسجد سے ہوسکتا ہے۔ عبدالرشید غازی نے بھی جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے خلاف آپریشن کے دوران مختلف نیوز چینلز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر انھیں ہلاک کر دیا گیا تو اسلام آباد بغداد بن سکتا ہے لیکن موجودہ حالات میں اسلام آباد بغداد تو نہیں بن سکا لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پورا صوبہ سرحد بغداد بننے والا ہے۔
پاک فوج کا اصل کام ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے اور اس پر قومی بجٹ کا بیشتر حصہ اس لیی خرچ کیا جاتا ہے کہ وہ نہ صرف ملکی سرحدوں کی حفاظت اور ریاستی اقتدارِ اعلیٰ کے تحفظ کو ممکن بنائے گی بلکہ وہ اندرون ملک بھی عوام کے جان و مال کی حفاظت کا فریضہ ادا کرتی رہے گی لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے فوجی جوان کبھی جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے خلاف فوجی ایکشن کے ذریعے اپنے ہی عوام کو مارتے ہیں، کبھی باجوڑ ایجنسی میں مدرسہ پر حملہ کرکے وہاں معصوم بچوں کی زندگیاں چھین لیتے ہیں، کبھی بلوچستان میں فوجی کارروائیوںکے ذریعے اپنے ہی اہلِ وطن پر آگ و آہن کی بارش برساکر ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں اور کبھی وزیرستان کے علاقوں میں عوام کے جان و مال کی حرمت سے کھیلتے ہیں۔ معلوم نہیں فوجی جرنیلوں کو تنخواہ باہر سے آتی ہے یا ان کی تنخواہیںپاکستان کے قومی خزانہ سے ادا کی جاتی ہیں۔ اگر ان کی تنخواہیں اور مراعات اس ملک کے مجبور و مقہور عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ادا کی جاتی ہیں تو پھر انھیں کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے ہی عوام کو گولیوں کا نشانہ بنائے۔ آئے روز افغانستان میں مقیم اتحادی افواج ہمارے اقتدارِ اعلیٰ کے لیی سوالیہ نشان بنتی رہتی ہیں لیکن ہماری فوج کے کان پر جوں تک بھی نہیں رینگتی لیکن اپنے لوگوں کے لیی ان کے گنوں کے دہانے ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں۔ امریکا ہزاروں کلومیٹر دور سات سمندر پار واقع ہے لیکن اس کی جنگ ہم اپنی ہی سرزمین پر اپنے ہی لوگو ں کے خلاف لڑ رہے ہیں اور اس کے باوجود امریکا بہادر کبھی پاکستان کے اقدامات سے مطمئن نہیں ہوتا۔ یہ کیسی جنگ ہے جس میں سرزمین بھی ہماری استعمال ہو رہی ہے اور اس کا ایندھن بھی ہم خود ہی بن رہے ہیں۔
جو کام سیاست دانوں کے کرنے کا ہے، وہ فوج نے سنبھال رکھا ہے۔ ہر مسئلے کا ایک پُرامن حل ہروقت موجود رہتا ہے۔ جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے خلاف فوجی ایکشن میں اپنے ہی عوام کے خلاف جو ظالمانہ انداز اپنایا گیا اور اس میں اپوزیشن رہنماؤں کے مطابق ایک ہزار سے زائد معصوم طالب علوموں کو جس بے دردی اور بے رحمانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا، اس کا ردِ عمل تو ہونا ہی تھا۔ اگر اس وقت کوئی حقیقی جمہوری حکومت برسرِ اقتدار ہوتی تو وہ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی پرامن حل نکالتی لیکن موجودہ جنرل مشرف کی فوجی حکومت تو محض اندھادھند طاقت پر یقین رکھتی ہے اور وہ ہر مسئلے کا حل فوجی طاقت ہی کو سمجھتی ہے۔ جامعہ حفصہ اور لال مسجد کی بجلی، گیس اور پانی کو بند کردیا جاتا اور انتظار کیا جاتا تو شاید انتہاپسند حکومت کے آگے ہتھیار ڈال دیتے لیکن چند انتہاپسندوں کی خاطر سیکڑوں بے گناہ انسانوں کو زندگیوں سے محروم کردیا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں انسانی جان کی کوئی قدر وقیمت نہیں اور ریاستی طاقت کے ذریعے اپنے ہی عوام کو ختم کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں سوچا جاتا۔
اب ملک کے حالات جس نہج پر جا رہے ہیں، اس کا نتیجہ خطرناک خانہ جنگی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ عوام اور فوج ایک دوسرے کے آمنے سامنے آسکتے ہیں اور یہ تو واضح ہے کہ ایک فوج دشمن سے تو لڑسکتی ہے لیکن اپنے عوام کے خلاف نہیں لڑسکتی۔ موجودہ حالات میں دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ فوج کو مزید برسرِ اقتدار نہیں رہنا چاہئے۔ جو معاملات سیاست دانوں کے کرنے ہیں، وہ انھیں کرنے دیا جائے۔ پاک فوج پاکستان کے عوام کا واحد سہارا ہے۔ یہ ملک کے امن و سلامتی کا واحد ضامن ادارہ ہے لیکن اگر عوام کی نظروں میں فوج کی ساکھ ختم ہوگئی اور عوام کے ذہنوں میںپاک فوج کے بارے میں مزید شکوک و شبہات اور بے یقینی نے جنم لیا تو یقین جانئے یہ ملک (خداناخواستہ) قائم نہیں رہ سکے گا۔ یہ ٹوٹ پھوٹ جائے گا اور اس کی تمام تر ذمے داری موجودہ فوجی قیادت پر عائد ہوگی۔ کیا موجودہ فوجی قیادت اپنے اقتدار اور امریکا کی اغراض کی تکمیل کے لیی ملک کی قربانی دے گی یا وہ باعزت طور پر اقتدار سے علاحدہ ہوکر قومی حکومت تشکیل دے گی اوراپنی پوری توجہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت پر دے گی۔ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو وطن واپسی کی اجازت دی جائے اورموجودہ حالات کے اصلاحِ احوال کے لیے سیاست دانوں کی اجتماعی فہم وبصیرت کو موقع دیا جائے ورنہ نوشتہء دیوار صاف نظر آرہا ہے۔​
٭٭٭٭٭​
 
Top