آج کا منتخب کالم

سندباد

لائبریرین
اردو محفل کے تمام ساتھیوں کی خدمت میں سلام عرض
آج کا منتخب کالم کا دوسرا مضمون پوسٹ کر رہا ہوں۔ اس سے قبل جاوید اقبال صاحب نے ارشاد احمد حقانی کا کالم پوسٹ کیا تھا لیکن اگر وہ اپنا کالم الگ دھاگے میں پوسٹ کردیتے تو شاید زیادہ دوستوں کی نظر میں آجاتا۔ جاوید بھائی نے بہت اہم اور معلومات افزا کالم پوسٹ کیا تھا۔ میں ان کے انتخاب کو داد دیتا ہوں۔
اھل محفل سے التماس ہے کہ وہ ہر کالم کے لئے الگ دھاگہ کھول لیا کریں تاکہ اس پر اسی دھاگے میں ساتھیوں کے تبصرے آسکیں۔ شکریہ
 

سندباد

لائبریرین
تیسری عالمی جنگ کا مخاطب کون؟
تحریر:۔ سینیٹر ڈاکٹر بابر اعوان
سینٹ آف پاکستان کے حالیہ اجلاس میں میری توقع پھر پوری نہ ہوسکی۔ میرا خیال تھا کہ حکومت کو مشرقی وسطیٰ میں اتحاد ی افواج کے کمانڈر کے نام منسوب اس بیان نے ہلکان کر رکھا ہوگا جس میں پاکستان میں دہشت گردی ختم نہ ہونے کی صورت میں (خدانخواستہ) تیسری عالمگیر جنگ چھڑ جانے کی خوفناک پیش گوئی کی گئی ہے ۔ اس بیان کی سیاسی خشک ہونے سے پہلی ہی برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے بھی کابل میں کہا ہے کہ اس جنگ کا فیصلہ میدان میں ہی ہوگا لیکن خلاف توقع اور حسب سابق نان ایشوز کو پوری عقیدت کے ساتھ زندہ رکھنے کی ماہر سرکار نے وفاق کے سب سے بڑے ایوان کو سابق بیوروکریٹ مرحوم غلام اسحاق خان کی حیات اور خدمات کے موضوع میں الجھائے رکھا مگر باجوڑ، درگئی اور خاص طور سے ہماری اپنی سرزمین کو تیسری عالمی جنگ کا نقطہ آغاز بنائے جانے کے موضوع کو پوری مہارت سے پس پشت ڈال دیا۔
ضرور ت تو اس بات کی ہے کہ ہمارے ارد گرد جو کچھ ہورہا ہے اسے سنجیدگی سے دیکھا اور قومی نقطہ نظر سے سمجھا جائے اس وقت کچھ اشارے ایسے ہیں جو بڑے واضح ہونے کی وجہ سے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان کی طرف فوراً توجہ کی جائے لیکن باجوڑ اور درگئی کے واقعات پر وفاقی حکومت کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ ایک سو بیس رکنی کابینہ کے صرف دو عدد وزراء نے سینٹ میں جاری اس بحث میں شکل دکھائی اور ان میں سے بھی متعلقہ وزارت کے وزیر اس وقت ایوان سے اٹھ کر تشریف لے گئے جب میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا وہ آئین پاکستان ، ملکی ضابطہ حیات، تعزیرات پاکستان اور ضابطہ فوجداری میں سے کوئی ایسی دفعہ بتاسکتے ہیں یا کسی ایسے طریقہ کار کاذکر کرسکتے ہیں جس کے تحت اگر کہیں دہشت گرد یا اس سے بھی بڑھ کر کوئی اشتہاری عدالتی ملزم چھپا ہوا ہو تو اس جگہ کا گھیراؤ کرکے اسے وارننگ دے کر اسے آنسو گیس کے ذریعے باہر نکال کر گرفتار کرنے ، عدالت میں لے جانے، اس کا ٹرائل کرنے اور اسے سزا دلوانے کے علاوہ اس کے گھر پر بمباری کرکے اس کے چیتھڑے اڑادینے کا طریقہ کا ر اختیار کرنے کی اجازت درج ہو؟
اس وقت سرد جنگ کے زمانے کی طرح ایک دفعہ پھر پاکستان کے گرد ونواح کے ممالک میں بین الاقوامی دلچسپی آخری حدوں تک چلی گئی ہے اگرچہ اس دلچسپی کی وجوہات افغانستان کے معاملے میں ایک طرح کی ہیں اور ایران کے معاملے میں دوسری طرح کی اور بھارت کے معاملے میں بہت ہی بردارانہ قسم کی لیکن پاکستان کے اندر عسکری آمریت کے تحت ہونے والے اقدامات کی وجہ سے مغرب ومشرق میں پاکستان کو دہشت گردی کے عالمی عفریت کا پشت پناہ سمجھا جاتاہے اور یہاں کے نظام حکومت پر قابضین کو اس پشت پناہی کا جزو سمجھا جاتاہے اسلئے ہمارے معاملے میں عالمی سطح پر سب کا رویہ یکساں اور سب کے خیالات ملتے جلتے ہیں چنانچہ ہم دہشت گردی کے بطن سے پھوٹنے والی ایک اور عالمگیر جنگ کی آمد کا طبل بجنے پر مجرمانہ غفلت کامظاہرہ کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے ۔
عالمی جنگ کی اس بات کو سمجھنے کیلئے بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں مثال کے طور پر ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کا مخاطب ہم نہیں ہیں کوئی اور ہے ؟ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کوئی اور کون ہے ؟ جنگ سے چُور چُورافغانستان؟ خاک، خون اور بارود میں ڈوبا ہوا عراق ؟ یا ان دونوں جنگوں سے الگ تھلگ کوئی اور پڑوسی ملک؟ بات یوں نہیں بنتی اسلئے یہ نظریہ مسترد کرنا پڑے گا کہ اس کا مخاطب ہم نہیں ہیں کوئی اور ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر اس کا مخاطب ہم ہی ہیں تو پھر اس کوہم اس قدر غیر سنجیدہ معاملہ کیوں سمجھ رہے ہیں اور حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ کبوتر کی مانند آنکھیں بند کرکے بلی کے لوٹ جانے کا انتظارکیوں کررہے ہیں ؟ کیا یہ مسئلہ بھی اس قابل نہیں ہے کہ حکومت خودوفاق کے نمائندہ ایوانوں میں اس پر غور وخوض کرنے کا اہتمام کرے یا معیشت کے پیچھے لگی ہوئی کا رپوریٹ سرکار صرف چند پیاروں کی جیبوں اور ان کے پیٹوں کا سائز میٹروں سے کلومیٹر وں تک بڑھانے میں مصروف ہے اور ان کا طرز عمل بزبان حال کہہ رہاہے۔
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں​
(بشکریہ نوائے وقت )
 

دوست

محفلین
یہ بات ٹھیک ہے کہ نان ایشوز پر ایک دوسرے کا گریبان پھاڑنا ہمارے سیاہ ستدانوں کا شیوہ ہے۔
تیسری عالمی جنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلچسپ موضوع ہے۔۔۔۔لیکن اس پر کیا کرلیں گے بحث کرکے۔ سارا کچھ تو جنرل صاحب کے ہاتھ میں‌ ہے امریکہ کا ساتھ دینے سے لے کر اب تک۔۔۔۔۔۔۔۔
اور باجوڑ کے واقعے پر کون بولے گا۔۔۔۔ وہ جن کے اپنے اس میں مارے گئے یا ان کے اپنے جو ردعمل میں درگئی کے ٹریننگ کیمپ میں مارے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top