آج بھی یاد یار باقی ہے۔ عارف اختر نقوی

آج بھی یادِ یار باقی ہے
عشق کا اعتبار باقی ہے

زندگی کی رمق ہے ہم میں ابھی
آپ کا انتظار باقی ہے

یادگار جنوں ہمارے پاس
دامن تار تار باقی ہے

یہ امیدیں نہ چھین لیں حالات
بس یہی اختیار باقی ہے

لفظ و معنی کی وسعتوں کے ساتھ
شعر کا اختصار باقی ہے

مرحبا عشاقان حق تم سے
کچھ امید بہار باقی ہے

عارف اختر نقوی
 
Top