آتش دان کا بت صفحہ 90-91

شکاری

محفلین
ٹائپنگ از شکاری
تصویری متن


صفحہ 90-91


صفدر آگے بڑھتا چلا گیا۔۔۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اُسے یہاں کیوں بلایا گیا ہے؟ جولیا پر عمران بہری لڑکی کا میک اپ کرنے والا تھا! اس کے بعد اس سے کیا کام لیتا ! صفدر اس کا اندازہ نہیں کرسکا! بہری لڑکی اور عمران کی گفتگو سے تو صاف ظاہر ہوگیا تھا کہ اس نے اُ سے بُت نما ٹرانسمیٹر پر بولنے والے کا پتہ نہیں بتایا۔صفدر سوچتا رہا اور اس کے ذہن میں ایک بے نام سی خلش بنی رہی جو کبھی کبھی اداسی بن کر اس کی رگ وپے میں سرایت کرتی چلی جاتی۔وہ میک اپ روم میں نہیں گیا!عمران نے اسے بلایا بھی نہیں‌ تھا۔! وہ عمارت میں‌اِدھر ادھر گھومتا رہا ۔ ۔ ۔ ایک جگہ اُسے ایک ایسا منظر دکھائی دیا۔کہ ایک پل کے لئے اسے اپنی سانسیں حلق میں اٹکتی محسوس ہونے لگیں۔ وہ آدمی ایک بڑی کھڑکی کے جنگلے سے لگے کھڑے نظر آئے تھے! کمرہ باہر سے مقفل تھا! انہوں نے وحشت زدہ نظروں‌سے صفدر کی طرف دیکھا۔اور پھر سر جھکالئے! شروع سے اب تک کی ساری داستان چشم زدن میں صفدر کی سمجھ میں آگئی ۔ ۔ ۔ وہ اور عمران دونوں آدمیوں کے میک اپ میں‌ دلکشا پہنچے تھے اور بہری رقاصہ سے گفتگو کی تھی ۔۔۔ مگر یہ دونوں آدمی بھی دانش منزل کے قیدی ہی ہوسکتے تھے۔ تو کیا ان دونو‌ں کی رسائی صرف بہری رقاصہ ہی تک تھی! اگر یہ بات نہ ہوتی تو اس آدمی کا پتہ انہیں دونوں سے مل گیا ہوتا۔ بہری رقاصہ کی نوبت ہی نہ آتی ۔ ۔ ۔ تب پھر یہ بھی ممکن تھا کہ بہری راصہ بھی اس آدمی کی شخصیت سے واقف ہو ۔ ۔ ۔ لیکن عمران ۔ ۔ ۔ آخر اس پر کیوں مصر تھا کہ وہ اسے جانتی ہے!
صفدر وہاں نہیں رکا! تھوڑی دیر تک ٹہلتا رہا پھر ایک خالی کمرے میں جابیٹھا! اس کا ذہن مختلف قسم کے خیالات کی آماجگاہ بنا رہا۔
پھر تقریباً ایک گھنٹے بعد عمران دکھائی دیا جس کے ساتھ جولیا بھی تھی! لیکن بہری رقاصہ کے روپ میں اُس نے اپنے اخروٹوں کی سی رنگت والے بال تک سیاہ رنگ میں رنگوادئیے تھے۔۔۔ اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے باوجود بھی یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ وہ بہری رقاصہ نہیں ہے۔
“مگر اس کی طرح اردو تو نہیں‌ بول سکوں گی“ جولیا کہہ رہی تھی۔“ ور پھر اس کی آواز کی نقل اتارنا بھی میرے بس سے باہر ہے۔“
“سنو“ عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔ “تمہیں اپنے ہونٹ سختی سے بند رکھنے ہوں گے تم کسی کی باتوں کا جواب نہیں دو گی کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوگی۔ آوازوں پر چونکو گی نہیں۔ کیا سمجھیں! یہ لڑکی بہرے پن کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ لٰہذا جب تم کسی کی بات سن ہی نہ سکو گی توجواب دینے کا سوال کہاں‌پیدا ہوتا ہے۔“
“پھر مجھے کیا کرنا ہوگا۔“
“تفریح! سیر سپاٹے پورے شہر میں گھومتی پھرو کبھی پیدل کبھی ٹیکسیوں میں! جوزف تمہارے ساتھ نہیں ہوگا۔ میں نے اسکیم بدل دی ہے! اگر تم سے کوئی کچھ پوچھنا چاہے تو صرف آنکھیں نکال کر سر کو استفہامیہ انداز میں جنبش دینا! ہونٹ نہ کھلنے پائیں‘ زبان نہ ہلنے پائے۔“
“آخر کیا مقصد ہے ؟“
“مقصد ایکس ٹو سے پوچھو۔“ عمران آنکھیں نکال کر بولا۔
“اے تم دھونس کس پر جماتے ہو! ہوش میں‌ رہنا۔“
“اس سے زیادہ مجھے اور کچھ نہیں کہنا۔“ عمران نے خشک لہجے میں کہا‘ اور کمرے سے نکل گیا! لیکن پھر پلٹ آیا اور ہاتھ اٹھاکر بولا۔ “ایک بات
 
Top