آتش دان کا بت صفحہ 88-89

شکاری

محفلین
ٹائپنگ از شکاری
تصویری متن



صفحہ 88-89


“کیا تم نے سنا نہیں۔“ عمران غرایا۔ اور جولیا چپ چاپ دروازے کی طرف مڑ گئی! صفدر وہیں رہا ! کچھ دیر بعد عمران نے اس سے کہا۔ “ اسے روم نمبر5 میں بند کردو۔“ صفدر کو لڑکی پر بڑا ترس آرہا تھا۔
“کیا تم نے بھی نہیں‌سُنا۔“
صفدر نے لڑکی کا بازو پکڑا اُسے دروازے کی طرف کھینچنے لگا۔
“کیا تمہیں مجھ پر رحم نہیں‌ آتا۔“ لڑکی نے بلبلا کر صفدر سے کہا۔
“نہیں غداروں پر کسی کو بھی رحم نہیں آسکتا۔“ عمران گرجا تم اسی خاک اٹھی ہو اور اسی کے خلاف سازچ کررہی ہو! کبھی نہیں اپنے ہاتھوں‌سے تمہارے جسم کا ریشہ ریشہ الگ کرسکتا ہوں۔“
“میں نہیں‌جانتی۔ اُسے نہیں جانتی! مجھ پر رحم کرو۔“
“اگر تم اُسے نہیں‌ جانتیں تو تم پر ضرور رحم کیا جائے گا! لیکن جب تک کہ اس کا ثبوت نہ مل جائے تم یہیں رہوگی۔۔۔جاؤ۔“
صفدر اُسے کھینچتا ہوا ہال سے نکال لایا۔
“کیا تم خود سے نہیں چل سکوگی! مجھے کھینچنا ہی پڑے گا۔“ صفدر نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اُسے یہ سب کچھ بہت گراں گزر رہا ۔ عمران کو دل ہی دل میں بُرا بھلا کہتا ہوا وہ لڑکی کو ایک طرف لے جارہا تھا۔
“ایک منٹ ٹھہرو۔“ لڑکی کراہی صفدر رُک گیا۔ وہ رحم طلب نظروں‌سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
“یہ کیا ہورہا ہے ! مجھے کچھ تو بتاؤ۔“ اس نے بڑی بے بسی سے پوچھا۔

“محترمہ۔۔۔مجھے کسی بات کا علم نہیں ہے۔“
“اچھا چلو مجھے کہاں لے جارہے ہو۔“
صفدر راہداری میں مڑ گیا۔ لڑکی اس کے ساتھ چلتی رہی! صفدر نے اس کا بازو اب چھوڑ دیا تھا۔
وہ روم نمبر پانچ کے سامنے رک گئے۔“
“ٹھہرو! میں‌سب کچھ برداشت کرلوں گی! مگر مجھے کچھ معلوم بھی تو ہو۔ میں‌ ایک رقاصہ ہوں! پچھلی رات نائٹ کلب میں ناچ رہی تھی۔رانا تہور علی نے مجھے اپنی میز پر دعوت دی ! میں سوچا کیا حرج ہے ! میں نے ان لوگوں کے ساتھ زیادہ پی لی ! پھر مجھے ہوش نہیں ! آج آنکھ کھلی تو خود کو یہاں پایا! تم شریف آدمی معلوم ہوتے ہو! خدارامجھے بتاؤ۔۔۔ کہ میں یہاں کیوں لائی گئی ہوں۔“
صفدر دم بخود رہ گیا! اتناسفید جھوٹ! ۔۔۔ پھر اس کہانی پر کیسے یقین کیا جاسکتا ہے‘ جو اس نے دلکشا کے ساؤنڈ پروف کمرے میں سنائی تھی! لیکن اگر وہ خود بھی عمران کے ساتھ نہ رہا ہوتا تو اس وقت اس چالاک لڑکی کی رانا تہور علی والی کہانی پر ضرور یقین کرلیتا ! اُس کے لہجے یا کہنے کے انداز پر جھوٹ کا دھوکہ نہیں‌ ہوسکتا تھا۔
صفدر نے سوچا! عمران کے اندازے غلط نہیں‌ہوتے۔ اس لڑکی پر رحم نہیں‌کیا جاسکتا۔
اُس نے کچھ کہے سُنے بغیر ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا اور لڑکی کو اندر دھکیل کر پھر بند کردیا! ویسے یہ خود کار دروازے تھے! ہینڈل کو داہنی جانب گھمانے سے کھلتے تھے اور بائیں جانب گھمانے سے مقفل ہوجاتے تھے اور پھر کنجی لگائے بغیر ان کا کھلنا محال ہوتا تھا۔
 
Top