شمشاد
لائبریرین
آتشدان کا بُت
صفحہ 62 - 63
سوچوں گا۔ سوچ کر جواب دوں گا۔" جوزف بہت زیادہ نڈھال نظر آنے لگا۔
دوسرے دن عمران جوزف سے کہہ رہا تھا۔ " تمہیں اس کی ملازمت کرنی پڑے گی۔"
"باس۔" جوزف چیخا۔ " کوئی عورت مجھے حکم نہیں دے سکتی۔"
"ابے تو کیا میں عورت ہوں۔"
"میں اس سفید چڑیل کی بات کر رہا ہوں۔"
"خبردار وہ سفید گلہری ہے۔۔۔ اور کالے پہاڑ سے عشق کرتی ہے۔ جوزف تم بکواس بند، تم اسے یوں سمجھو کہ وہ میرے دشمنوں کی پارٹی سے تعلق رکھتی ہے! تم نوکر میرے ہی ہو لیکن کچھ دن اُس کے ساتھ کام کرو گے! تم سے وہ جو کام بھی لینا چاہے اس کی اطلاع مجھے دیتے رہنا۔۔۔ کیا سمجھے۔"
"اوہ تو یہ کیوں نہیں کہتے باس! میں ضرور جاؤں گا۔" جوزف خوش ہو کر بولا۔ " تمہارے دشمنوں کی کھوپڑیاں چباؤں گا۔"
"لیکن اسے میرے بارے میں کچھ بھی نہ معلوم ہونے پائے۔"
ہرگز نہیں باس! اندھیرے کے شکار میں مجھے بڑا مزہ آتا ہے۔۔۔ میں ضرور جاؤں گا! اور آج ہی جاؤں گا۔"
"کہاں جاؤ گے۔"
" وہ آج شام کو اپنا پتہ بجھوائے گی! اُس نے کہا تھا کہ اگر نوکری کا فیصلہ کرو تو اسی پتہ پر آ جانا۔!"
لیکن اس شام کو عمران نے ایک بار پھر صفدر کو چکر میں ڈال دیا! اس کے ہاتھ میں شام کا ایک اخبار تھا! اُس نے اسے ایک اشتہار دیکھایا جس کی سرخی تھی !
"چوہے مارئیے"
"کیا مطلب!" صفدر نے متحیرانہ انداز میں پوچھا۔
"شتر مرغ مارنے کے لئے نہیں لکھا گیا!" عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔
"ہاں میں سمجھتا ہوں کہ چوہے مارنا اتنا مشکل نہیں ہے۔۔۔ جتنا شتر مرغ مارنا۔ لیکن آپ مجھے یہ اشتہار کیوں دکھا رہے ہیں!"
یہ کسی دوا کا اشتہار تھا جسے آتے کی گولیوں میں چوہے مارنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا! عمران تھوڑی دیر تک صفدر کی آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر بولا۔ "یہ پیشہ بھی بُرا نہیں رہے گا! جب کہ اتنی سی بات بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آ سکتی۔"
"آپ کی کوئی بات میری سمجھ میں نہیں آتی!"
"کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہمارے روانگی کے وقت ۔۔۔ اس بہری قتالہ عالم نے چوہے کی فرمائش کی تھی۔"
صفحہ 62 - 63
سوچوں گا۔ سوچ کر جواب دوں گا۔" جوزف بہت زیادہ نڈھال نظر آنے لگا۔
دوسرے دن عمران جوزف سے کہہ رہا تھا۔ " تمہیں اس کی ملازمت کرنی پڑے گی۔"
"باس۔" جوزف چیخا۔ " کوئی عورت مجھے حکم نہیں دے سکتی۔"
"ابے تو کیا میں عورت ہوں۔"
"میں اس سفید چڑیل کی بات کر رہا ہوں۔"
"خبردار وہ سفید گلہری ہے۔۔۔ اور کالے پہاڑ سے عشق کرتی ہے۔ جوزف تم بکواس بند، تم اسے یوں سمجھو کہ وہ میرے دشمنوں کی پارٹی سے تعلق رکھتی ہے! تم نوکر میرے ہی ہو لیکن کچھ دن اُس کے ساتھ کام کرو گے! تم سے وہ جو کام بھی لینا چاہے اس کی اطلاع مجھے دیتے رہنا۔۔۔ کیا سمجھے۔"
"اوہ تو یہ کیوں نہیں کہتے باس! میں ضرور جاؤں گا۔" جوزف خوش ہو کر بولا۔ " تمہارے دشمنوں کی کھوپڑیاں چباؤں گا۔"
"لیکن اسے میرے بارے میں کچھ بھی نہ معلوم ہونے پائے۔"
ہرگز نہیں باس! اندھیرے کے شکار میں مجھے بڑا مزہ آتا ہے۔۔۔ میں ضرور جاؤں گا! اور آج ہی جاؤں گا۔"
"کہاں جاؤ گے۔"
" وہ آج شام کو اپنا پتہ بجھوائے گی! اُس نے کہا تھا کہ اگر نوکری کا فیصلہ کرو تو اسی پتہ پر آ جانا۔!"
لیکن اس شام کو عمران نے ایک بار پھر صفدر کو چکر میں ڈال دیا! اس کے ہاتھ میں شام کا ایک اخبار تھا! اُس نے اسے ایک اشتہار دیکھایا جس کی سرخی تھی !
"چوہے مارئیے"
"کیا مطلب!" صفدر نے متحیرانہ انداز میں پوچھا۔
"شتر مرغ مارنے کے لئے نہیں لکھا گیا!" عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔
"ہاں میں سمجھتا ہوں کہ چوہے مارنا اتنا مشکل نہیں ہے۔۔۔ جتنا شتر مرغ مارنا۔ لیکن آپ مجھے یہ اشتہار کیوں دکھا رہے ہیں!"
یہ کسی دوا کا اشتہار تھا جسے آتے کی گولیوں میں چوہے مارنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا! عمران تھوڑی دیر تک صفدر کی آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر بولا۔ "یہ پیشہ بھی بُرا نہیں رہے گا! جب کہ اتنی سی بات بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آ سکتی۔"
"آپ کی کوئی بات میری سمجھ میں نہیں آتی!"
"کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہمارے روانگی کے وقت ۔۔۔ اس بہری قتالہ عالم نے چوہے کی فرمائش کی تھی۔"