محسن نقوی آؤ وعدہ کریں

آؤ وعدہ کریں
آؤ وعدہ کریں
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم
دیدہِ دل کی بے انت شاہی میں ہم
زیرِ دامانِ تقدیسِ لوح و قلم
اپنے خوابوں، خیالوں کی جاگیر کو
فکر کے موءقلم سے تراشی ہوئی
اپنی شفاف سوچوں کی تصویر کو
اپنے بے حرف ہاتھوں کی تحریر کو، اپنی تقدیر کو
یوں سنبھالیں گے، مثلِ چراغِ حرم
جیسے آندھی میں بے گھر مسافر کوئی
بجھتی آنکھوں کے بوسیدہ فانوس میں
پہرہ داروں کی صورت چھپائے رکھے
جانے والوں کے دھندلے سے نقشِ قدم
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم – پھر ارادہ کریں
جتنی یادوں کے خاکے نمایاں نہیں
جتنے ہونٹوں کے یاقوت بے آب ہیں
جتنی آنکھوں کے نیلم فروزاں نہیں
جتنے چہروں کے مرجان زرداب ہیں
جتنی سوچیں بھی مشعلِ بداماں نہیں
جتنے گل رنگ مہتاب گہناگئے – جتنے معصوم رخسار
مرجھا گئے
جتنی شمعیں بجھیں ، جتنی شاخیں جلیں
سب کو خوشبو بھری زندگی بخش دیں، تازگی بخش دیں
بھر دیں سب کی رگوں میں لہو نم بہ نم
مثلِ ابرِ کرم رکھ لیں سب کا بھرم
دیدہ و دل کی بے انت شاہی میں ہم
زخم کھائیں گے حسنِ چمن کے لئیے
اشک مہکائیں گے مثلِ رخسارِ گل
صرف آرائشِ پیرہن کے لئیے، مسکرائیں گے رنج و غم
دہر میں
اپنی ہنستی ہوئی انجمن کے لئیے
طعنِ احباب، سرمایہ کج دل، بجز اغیار سہہ لیں گے
فن کے لئیے
آؤ وعدہ کریں
سانس لیں گے متاعِ سخن کے لئیے
جان گنوائیں گے ارضِ وطن کے لیے
دیدہ و دل کی شوریدگی کی قسم
آسمانوں سے اونچا رکھیں گے عَلم
آؤ وعدہ کریں
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم

۔۔۔ محسن نقوی ۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
محسن وقار علی صاحب، آپ کے توسط سے محسن نقوی کی کیا ہی خوبصورت نظم پڑھنے کو ملی۔ لطف آ گیا۔
آؤ وعدہ کریں
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم
دیدہِ دل کی بے انت شاہی میں ہم
واہ واہ
 
Top