ª!ªکچھ ریلیاں اور بھی…!,,,,نقش خیال…عرفان صدیقیª!ª

آبی ٹوکول

محفلین
پیدا کوئی بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
دکھ تو بہت سوں کو ہوا لیکن شدت درد سے نڈھال ہوکر ایم کیو ایم نے سوات وڈیو کی ”مظلومہ“ کے حق میں ایک عظیم ریلی کا اہتمام کیا۔ قائد تحریک نے لندن سے ٹیلی فونک خطاب میں مطالبہ کیا کہ ”اس ظلم و بربریت کے ذمہ داروں کو سرعام پھانسی دی جائے اور ان کی لاشیں کوڑوں کی تعداد کے برابر دنوں تک لٹکائے رکھی جائیں“۔ جناب الطاف حسین نے قرآن کریم کی سورہ نور کی تفسیر بیان کرتے ہوئے علمائے کرام کو آیات قرآنی کے حقیقی معنی و مفہوم اور حدود و تعزیرات کی شرعی نزاکتوں سے آگاہ کیا اور فرمایا کہ ”میں آخری سانس تک آواز حق بلند کرتا رہوں گا اور ظلم کو ظلم کہتا رہوں گا“۔ مقام اطمینان ہے کہ ظلم و ستم کے شکار اس معاشرے میں کچھ اللہ والے ایسے بھی ہیں جو ظلم کو ظلم کہنے اور آخری سانس تک آواز حق بلند کرتے رہنے کا عزم صمیم رکھتے ہیں۔ کراچی کی اس ریلی سے واضح ہوتا ہے کہ اب یہاں ستمگروں کے دن گنے جاچکے ہیں۔ اب وہ کسی مجبور و بے بس کی پیٹھ پر کوڑے نہیں برسا سکیں گے، اب کوئی کسی کا حق نہیں چھین سکے گا، اب کسی کو اپنی طاقت کے زعم میں ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی جسارت نہ ہوگی، اب کوئی جبر کے ہتھکنڈوں سے اپنی بالادستی قائم نہیں کرسکے گا، اب کوئی اپنے زیر قبضہ بستیوں پر اپنا راج قائم نہیں کرسکے گا اور اب کوئی خلق خدا کو یرغمال بناکر اپنے من پسند شکنجوں میں نہیں کس سکے گا۔
بہار کے ان تازہ امکانات سے حوصلہ پاکر میں ظلم و ستم کی دو تین داستانوں کا بھی تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو اس ارض مقدس پر رقم ہوئیں لیکن نہ کسی نے مظلوموں کے آنسو پونچھے، نہ کسی نے مقتولوں کا خوں بہا مانگا، نہ کسی نے معصوموں کی دادرسی کی، نہ کسی کے دل میں درد کی کوئی لہر اٹھی، نہ کسی ریلی کا اہتمام ہوا، نہ کوئی آواز حق بلند ہوئی، نہ کسی نے ظلم کو ظلم کہا۔ یہ روشنیوں کے اسی شہر کا قصہ ہے جو اب ریلیوں کا شہر بن چکا ہے، جہاں 12مئی 2007ء کو خون کی ہولی کھیلی گئی اس دن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو کراچی ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک تقریب سے خطاب کرنا تھا۔ تب کراچی پر مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کی حکمرانی تھی۔ پاکستان پرویز مشرف کے پنجہ ستم میں تھا۔ چیف جسٹس کو لاؤنج سے باہر نہ نکلنے دیا گیا۔ پھر یوں ہوا کہ کراچی کی شاہراہیں، قتل گاہیں بن گئیں، ہتھیار بند جھتے جانے کن کونوں کھدروں سے نکل آئے، دیکھتے دیکھتے سوا کروڑ آبادی کا شہر بے نوا، زخمی پرندے کی طرح ان کے قدموں میں ڈھیر ہوگیا۔ اڑتالیس افراد قتل کردیئے گئے یقیناً انہوں نے بھی کچھ ماؤں کی آغوش سے جنم لیا ہوگا۔ اجڑی کوکھ والی ان حرماں نصیب خواتین پر بھی قیامت ٹوٹی ہوگی، ان کی پیٹھ پر کوڑے تو نہیں برسے لیکن ان کے دلوں میں پیوست ہونے والے خنجروں کے زخم اب تک ہرے ہوں گے وہ اب بھی اپنے جگر گوشوں کے قدموں کی چاپ سننے کے لئے ساری ساری رات دہلیز پر بیٹھی رہتی ہوں گی۔ شاید ان کی بہنیں، بیٹیاں اور بیویاں بھی ہوں، ان کے سینوں میں پیہم سلگتی آگ کون ٹھنڈی کرے گا؟ سوات والی وڈیو پر تو سو سو سوال اٹھ رہے ہیں۔ جانے وہ اصلی ہے یا جعلسازی کا شاہکار۔ لیکن 12مئی 2007ء کے خوں آشام دن کا ایک ایک لہو رنگ لمحہ بیسیوں پاکستانی چینلز کے پاس محفوظ ہے۔ ظالموں کے چہرے شناخت کرنے کے لئے یہ فلمیں پھر سے چلائی جاسکتی ہیں۔ کسی کے خلاف کوئی ایف آئی آر کٹی نہ کوئی تفتیشی ٹیم بیٹھی، نہ کسی کا گریبان پکڑا گیا، نہ کوئی مقدمہ چلا، نہ کسی کو سزا ہوئی، نہ کسی نے نوحہ پڑھا، نہ کسی نے گریہ کیا۔ بس اتنا ہوا کہ اس شام مشرف نے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے اس قتل عام کو عوامی طاقت کا مظاہرہ قرار دیا۔ ممکن ہے یہ ساری تفصیل اب تک لندن نہ پہنچی ہو لیکن آواز حق بلند کرنے اور ظلم کو ظلم کہنے کا موقع آج بھی موجود ہے۔ ایم کیو ایم آج بھی صوبے اور مرکز میں شریک اقتدار ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ سانحہ 12مئی کے حقائق کا پتہ چلا کر ظالموں کا کڑا احتساب نہ کیا جاسکے اور مبینہ سوات وڈیو کے کرداروں کی طرح انہیں بھی نمونہ عبرت نہ بنایا جاسکے۔ اس مقصد کے لئے ایک ایسی ہی عظیم الشان ریلی اور قائد تحریک کا ایک ایسا ہی ولولہ انگیز خطبہ زبردست نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ اپریل 2008ء میں، عروس البلاد ہی میں کچھ وکلاء اپنے چیمبرز میں زندہ جلا دیئے گئے۔ آج تک تحقیق کی بساط بچھی نہ قاتلوں کا سراغ ملا۔ بھسم ہوجانے والوں میں ایک خاتون بھی تھی۔ شاید ایک آتش بجاں ریلی ان بھولے بسرے سوختہ سامانوں کی یاد تازہ کردے۔
ایک عدد ریلی اور ایک عدد خطاب جامعہ حفصہ کی ان معصوم بچیوں کی پاکباز روحوں کے لئے بھی واجب ہے جو آج بھی جنت کے جھروکوں سے جھانک رہی ہیں کہ ہے کوئی مرد حق جوان کے پھول جیسے جسموں پر گولیاں برسانے اور فاسفورس کے بموں سے بھسم کرنے والے شخص کا گریبان پکڑے؟ آج تک یہ بھی پتہ نہیں چلایا جاسکا کہ وہ کتنی تھیں؟ واقفان حال، ان کی تعداد سترہ سو کے لگ بھگ بتاتے ہیں۔ آزاد عدلیہ کی بحالی کے بعد فرار کی راہ اختیار کرنے والے آمر نے کہا ”وہ صرف 93تھیں، کسی کو شک ہے تو ان کی قبریں کھود کر دیکھ لے“ کوئی اس خدا فراموش شخص سے پوچھے ”صرف 93“ کہتے ہوئے تمہارے جسم نے جھرجھری نہیں لی؟ یہ ہماری ہی نہیں، دنیا بھر کی تاریخ کا سب سے المناک سانحہ تھا۔ نام نہاد سوات وڈیو کی نام نہاد مظلومہ چاند بی بی کا تو بیان آگیا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں لیکن جامعہ حفصہ کی بیٹیوں کی راکھ میں سلگتی ایک ایک چنگاری زبان حال سے گواہی دے رہی ہے۔ ایک ریلی اور ایک آواز حق ان کے لئے بھی سہی۔
قوم کی ایک اور بیٹی کہ نام اس کا ڈاکٹر شازیہ تھا، بلوچستان میں ایسی ہی بہیمیت کا نشانہ بن گئی تھی۔ نہ جانے وہ اب کہاں ہے؟ جہاں کہیں بھی ہے، شاید ایک ایسی ہی ریلی اور ایسی ہی تقریر سے اس کا المیہ تازہ ہوجائے اور اسے انصاف مل جائے۔ گزشتہ دنوں نصیر آباد میں پانچ لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا گیا تھا۔ ان کی بے چین روحیں اب تک دہائی دے رہی ہیں۔ ممکن ہوتو ایک ریلی ان کے لئے بھی نکال لی جائے۔ شاید انہیں سکون مل جائے۔ جس وقت کراچی میں ریلی ہورہی تھی اور قائد تحریک تقریر کررہے تھے، عین اس وقت صوبہ سندھ کے ایک شہر میں ایک خاتون کی ناک کاٹ دی گئی۔ آئے روز حوّا کی کسی نہ کسی بیٹی کو بھون دیا جاتا ہے۔ کسی کے کان، کسی کی ناک کاٹ لی جاتی ہے،کسی کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے،کسی کم سن بچی کو بزور کسی بوڑھے کے ساتھ نتھی کردیا جاتا ہے۔ ایک آدھ ریلی ان کے لئے بھی ضرور نکلنی چاہئے۔ امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بننے اور سب کچھ گنوا دینے والی عفت مآب بیٹیوں، مہاجر کیمپوں میں بھٹکتی ماؤں اور ان کی بانہوں میں بلکتے فاقہ زدہ بچوں سے اظہار یکجہتی کے لئے ایک ریلی امریکی رعونت کے خلاف بھی ہوجائے تو کوئی ہرج نہیں۔ اور ایسی ہی ایک پرجوش ریلی، ایسا ہی ایک جنوں خیز خطاب عافیہ صدیقی نامی دختر قوم کے لئے بھی ہوجانا چاہئے جو چھ برس سے امریکی عقوبت خانوں میں گل سڑ رہی ہے اور جس کے روز و شب کا ایک ایک لمحہ اس کے وجود پر فولادی کوڑے کی طرح برس رہا ہے۔
ایم کیو ایم کی ریلی اور قائد تحریک کا یہ اعلان بڑا ہی روح پرور ہے کہ ”میں آخری سانس تک آواز حق بلند کرتا رہوں گا اور ظلم کو ظلم کہتا رہو گا“۔ بہت سے سوختہ بخت مظلوموں کی بے کل روحیں اس آواز حق کو پکار رہی ہیں۔
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی
بشکریہ جنگ نیوز
 
Top