چل آ کہ دہر سے کذب و ریا کشید کریں۔ سید ضامن عباس کاظمی

سیما علی

لائبریرین
چل آ کہ دہر سے کذب و ریا کشید کریں
کسی کے جرم سے اپنی سزا کشید کریں

چل آ کہ ہم بھی چلیں پار اس عدم کے کہیں
خلا کو خام بنائیں ہوا کشید کریں

ہم ایسے خانہ بدوشوں کی کیا حدیں ہوں گی
جو وقت ذہن میں رکھ کر جگہ کشید کریں

چل اپنے چھوٹے سے غم کو بڑھاوا دیتے رہیں
پھر اس کے پہلو سے کرب و بلا کشید کریں

ہمیں سمجھنے پرکھنے میں لوگ لگ تو گئے
نہیں ہے وصف کوئی بھی تو کیا کشید کریں

چل آ بشر کو کسی وسوسے میں جھونک دیں اور
اسی سے خوف بنائیں خدا کشید کریں
 
Top