توقیر

  1. A

    دریا کو ہم نے خستہ مکانی کی بھیک دی.......غزل

    دریا کو ہم نے خستہ مکانی کی بھیک دی پھراس کے بعد آنکھ کو پانی کی بھیک دی ایسے نہیں یہ سینہ کشادہ کیے ہوئے صحرا کو آہؤوں نے جوانی کی بھیک دی اے عشق تیری خیر کہ تیرے ثبات نے دنیا کو روز تازہ کہانی کی بھیک دی اس کے لبوں پہ شعر مکمل نہ ہو سکا پھولوں کو لاکھ مصرعہ ثانی کی بھیک دی جیسے...
Top