غزل
(رخشندہ نوید)
تو نے سوچا ہی نہیں کچھ بھی ہٹا کر اس سے
اب بچھڑنا ہے تو پھر خود کو جدا کر اس سے
وہ بگڑتا ہے تو دنیا ہی بگڑ جاتی ہے
اس لئے رکھنی پڑی مجھ کو بنا کر اس سے
ایک جگنو تھا مگر اسِ سے جلے کتنے چراغ
رابطے بڑھتے گئے ربط بڑھا کر اِس سے
بات کیا ہے کہ اٹھائی ہی نہ...