غزلِ
ابرُو تو دِکھا دیجیے شمشِیر سے پہلے
تقصِیر تو کُچھ ہو، مِری تعزِیر سے پہلے
معلوُم ہُوا اب مِری قِسمت میں نہیں تم
مِلنا تھا مجھے کاتبِ تقدِیر سے پہلے
اے دستِ جنُوں توڑ نہ دروازۂ زِنداں
میں پُوچھ تو لوُں پاؤں کی زنجیر سے پہلے
اچھّا ہُوا، آخر مِری قِسمت میں سِتم تھے
تم مِل گئے مجھ کو...