"محبت ہو کہ رہتی ہے"
ہماری ایک آزاد نظم
محبت کی کہانی میں بدن
گر ہار بھی جائے
تمازت کم نہیں ہوتی
محبت روح کی مستی
محبت با صفاء جذبہ
محبت نور کا بندھن
محبت روح کا ایندھن
محبت نالہ آدم
محبت نوح کا ماتم
محبت طور پر روشن
محبت ہر صدی اور ہر زمانے میں
ہر اک ظالم سے ٹکرائی
کبھی طائف کی گلیوں میں...
شفیق خلش
پیار
ہمارا پیار نہ دِل سے کبھی بُھلا دینا
ہمیشہ جینے کا تم اِس سے حوصلہ دینا
بھٹک پڑوں یا کبھی راستہ نظر میں نہ ہو !
ستارہ بن کے مجھے راستہ دِکھا دینا
دیے تمام ہی یادوں کے ضُوفشاں کرکے
ہو تیرگی کبھی راہوں پہ تو مِٹا دینا
تم اپنے پیار کے روشن خوشی کے لمحوں سے
غموں سے بُجھتے...