غزلِ
عزیزلکھنوی
اُلجھن کا عِلاج آہ کوئی کام نہ آیا !
جی کھول کے رویا بھی تو آرام نہ آیا
دل سینے میں جب تک رہا آرام نہ آیا
کام آئے گا کِس کے جو مِرے کام نہ آیا
کام اُس کے نہ کاش آئے وہ مغرور بھی یونہی
جیسے دلِ آوارہ مِرے کام نہ آیا
یہ کہہ کے وہ سرہانے سے بیمار کے اُٹّھے
صد شکر، کہ...
غزلِ
عزیزلکھنوی
جلوہ دکھلائے جووہ اپنی خود آرائی کا
نُور جل جائے ابھی چشمِ تماشائی کا
رنگ ہرپُھول میں ہے حُسن خود آرائی کا
چمنِ دہر ہے محضر تِری یکتائی کا
اپنے مرکز کی طرف مائلِ پرواز تھا حُسن
بُھولتا ہی نہیں عالم تِری انگڑائی کا
اُف تِرے حُسنِ جہاں سوز کی پُر زور کشِش
نُور سب کھینچ لِیا...