فرحت شہزاد

  1. طارق شاہ

    فرحت شہزاد :::: کُھلی جو آنکھ تو وہ تھا نہ وہ زمانہ تھا -- Ferhat Shehzaad

    غزلِ فرحت شہزاد کُھلی جو آنکھ ، تو وہ تھا، نہ وہ زمانہ تھا دہکتی آگ تھی، تنہائی تھی، فسانہ تھا غموں نے بانٹ لیا تھا مجھے یوں آپس میں کہ جیسے میں کوئی لُوٹا ہُوا خزانہ تھا یہ کیا کہ چند ہی قدموں پہ تھک کے بیٹھ گئے تُمھیں تو ساتھ مِرا دُور تک نِبھانا تھا مجھے، جو میرے لہو میں ڈبو کے گزُرا ہے...
  2. ظ

    کیا خبر تھی کہ میں اس درجہ ، بدل جاؤں گا

    کیا خبر تھی کہ میں اس درجہ ، بدل جاؤں گا تجھ کو کھو دونگا ، تیرے غم سے سنبھل جاؤں گا اجنبی بن کے ملوں گا ، میں تجھے محفل میں تُو نے چھیڑی بھی تو میں بات ، بدل جاؤں گا ڈھونڈ پائے نہ جہاں ، یاد بھی تیری مجھ کو ایسے جنگل میں ، کسی روز نکل جاؤں گا ضد میں آئے ہوئے معصوم سے بچے کی طرح...
  3. N

    ایک بس تو ہی نہیں مجھ سے خفا ہو بیٹھا - فرحت شہزاد

    عزیزانِ محترم، آداب و تسلیمات، جنابِ فرحت شہزاد کا کلام آپ دوستوں کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔ امید ہے پسند فرمائینگے ۔ ایک بس تو ہی نہیں مجھ سے خفا ہو بیٹھا میں نے جو سنگ تراشا وہ خدا ہو بیٹھا اٹھ کے منزل ہی اگر آئے تو شاید کچھ ہو شوقِ منزل تو مرا آبلہ پا ہو بیٹھا شکریہ اے مرے قاتل، اے...
Top