غزل
آہ و فریاد سے معمُور چمن ہے ،کہ جو تھا
مائلِ جَور ، وہی چرخ ِکُہن ہے، کہ جو تھا
حُسن پابندیٔ آدابِ جَفا پر مجبُور
عِشق ، آوارہ سَر ِکوہ و دَمن ہے،کہ جو تھا
لاکھ بدلا سہی منصوُر کا آئینِ حیات !
آج بھی سِلسِلۂ دار و رَسن ہے، کہ جو تھا
ڈر کے چونک اُٹھتی ہیں خوابوں سے نَویلی کلیاں
خندۂ گُل...