ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

  1. کاشفی

    ہیں‌ کسی کی یہ کرم فرمائیاں - ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

    غزل ( ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی) ہیں‌ کسی کی یہ کرم فرمائیاں بج رہی ہیں ذہن میں شہنائیاں اس کا آنا ایک فال نیک ہے زندگی میں ہیں مری رعنائیاں مرتعش ہو جاتا ہے تار وجود جس گھڑی لیتا ہے وہ انگڑائیاں اس کی چشم نیلگوں ہے ایسی جھیل جسکی لا محدود ہیں گہرائیاں چاہتا ہے دل یہ اس...
  2. کاشفی

    الوداع اے ماہِ رمضاں الوادع - ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

    الوداع اے ماہِ رمضاں الوادع (ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی) دیکھتے ہیں اہلِ ایماں تیری راہ، الوداع اے ماہِ رمضاں الوادع تجھ پہ قرباں مال و دولت عزّ و جاہ، الوداع اے ماہِ رمضاں الوادع مٹ گئے تیری بدولت سب گناہ، الوداع اے ماہِ رمضاں الوادع جارہا ہے چھوڑ کر تو ہم کو آہ، الوداع اے ماہِ رمضاں...
  3. کاشفی

    کر کے وعدہ وہ کسی وقت مُکر جائے گا - ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

    غزل (ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی - ہندوستان) کر کے وعدہ وہ کسی وقت مُکر جائے گا رنگ اپنا وہ دکھائے گا جدھر جائے گا جارہا ہے وہ اگر روٹھ کے جانے دو اُسے وہ یہیں لوٹ کے آئے گا کدھر جائے گا وہ مرے درپئے آزار ہے لیکن پھر بھی اس کا الزام کسی اور کے سر جائے گا وہ ہے سرشار ابھی بادہء نخوت...
  4. کاشفی

    آگیا ہے سرچشمہء فضلِ خدا ماہِ صیام - ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

    آگیا ہے سرچشمہء فضلِ خدا ماہِ صیام (ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی) اہلِ ایماں کے لئے ہے یہ مسرت کا پیام آگیا سرچشمہء فضلِ خدا ماہِ صیام روح پرور ہے یہ تسبیح و تلاوت کا سماں کررہے ہیں سب بقدرِ ظرف اس کا اہتمام مسجدیں فضلِ خدا سے مطلعِ انوار ہیں پی رہے ہیں اہلِ ایماں بادہء وحدت کا جام...
  5. کاشفی

    اُردو غزل - ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

    اُردو غزل (ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی) سوز و ساز عشق کا اظہار ہے اُردو غزل انبساط و کیف سے سرشار ہے اُردو غزل ترجمان کوچہ و بازار ہے اُردو غزل مظہر رنج و غم و آزار ہے اُردو غزل ہے "حدیث دلبری" بھی اور تفسیر حیات سربسر گنجینہء افکار ہے اُردو غزل درحقیقت ہے یہ "اُردو شاعری کی آبرو"...
  6. کاشفی

    جائیں تو کہاں اب جائیں ہم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے - ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

    غزل (ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی) جائیں تو کہاں اب جائیں ہم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے ہوتا نہیں وہ مائل بہ کرم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے سب وعدہ شکن ہوتے ہیں صنم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے سہتے ہی رہے ہم اُن کے ستم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے چبھتے رہے دل میں...
Top