غزل
خُود حِجابوں سا، خُود جَمال سا تھا
دِل کا عالَم بھی بے مِثال سا تھا
عکس میرا بھی آئِنوں سے نہاں
وہ بھی اِک کیفیّت خیال سا تھا
دشت میں، سامنے تھا خَیمۂ گُل
دُورِیوں میں عَجب کمال سا تھا
بے سَبَب تو نہیں تھا آنکھوں میں
ایک مَوسَم، کہ لا زَوَال سا تھا
خَوف انْدھیروں کا، ڈر اُجالوں سے...
غزل
شاید ابھی ہے راکھ میں کوئی شرار بھی
کیوں ورنہ اِنتظار بھی ہے، اِضطِرار بھی
دھیان آ گیا تھا، مرگِ دِلِ نامُراد کا
مِلنے کو مِل گیا ہے سُکُوں بھی قرار بھی
اب ڈھونڈنے چلے ہو مُسافر کو، دوستو!
حَدِّ نِگاہ تک، نہ رہا جب غُبار بھی
ہر آستاں پہ ناصِیہ فرسا ہیں آج وہ
جو کل نہ کر سکے تھے...
شکست
بال آیا نہ چھنک کے ٹوٹے
ٹوٹنا جن کا مقّدر ٹوٹے
لب پہ الفاظ تو خواب آنکھوں میں
وہ ستارے ہوں کہ ساغر ٹوٹے
حسن ِتخلیق کی توہین ہوئی
ناز تخیل کی شہہ پر ٹوٹے
نذر ِ تادیب ہے ناگفتہ بیاں
نا تراشیدہ بھی پیکر ٹوٹے
تم اِک امید کی خاطر روئے
اِس صنم زار میں آذر ٹوٹے
(ادا جعفری)