ا صلاحِ سخن

  1. عاطف ملک

    برائے اصلاح: زمانے سے کنارا کر لیا ہے

    زمانے سے کِنارا کر لیا ہے تِرا خودکو دوبارہ کرلیا ہے نہاں پردے میں تیرے راز تھا جو وہ خود پہ آشکارا کر لیا ہے ضیا تیری دِکھانا چاہتا تھا قمر کو استعارہ کر لیا ہے مصائب ہیں زمانے کے ہزاروں تجھے اپنا سہارا کر لیا ہے مِری قسمت کہ تو نے مجھ کو اپنا کہا جانا گوارا کر لیا ہے
Top