شب چھلکتے ہی واں سے اُٹھتا ہے
جیسے دل بدگُماں سے اُٹھتا ہے
اُن کے ابرو اُٹھا تے ہیں ورنہ
دل بھلا کب وہاں سے اُٹھتا ہے
ہونٹ چھوڑیں تو زلف کھینچے ہے
کون اُس آستاں سے اُٹھتا ہے
میں نے مانا کہ میں نہیں تیرا
بیٹھ تو، کیوں یہاں سے اُٹھتا ہے؟
یہ پہاڑوں پہ آگ کیسی ہے؟
یہ دُھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے؟...