بادباں کب کھولتا ہوں پار کب جاتا ہوں میں
روز رستے کی طرح دریا سے لوٹ آتا ہوں میں
صبح دم میں کھولتا ہون رسی اپنے پاؤں کی
دن ڈھلے خود کو کہیں سے ہانک کر لاتا ہوں
ایک بچے کی طرح خود کو بٹھا کر سامنے
خوب خود کو کوستا ہوں خوب سمجھاتا ہوں میں
یہ وہی تنہائی ہے جس سے بہل جاتا تھا دل
یہ وہی تنہائی ہے...