ابهی مٹی گندهی ہے بس، ابهی تجسیم باقی ہے
ابهی سانچے میں ڈهلنا ہے، ابهی ترمیم باقی ہے
مرا دعوی ہے یہ لوگو محبت جانتی ہوں میں
ابهی چار حرف سیکهے ہیں ابهی تفہیم باقی ہے
زنجیرعشق میں جکڑی  ابهی مقتل میں پہنچی ہوں
ابهی تو ٹکڑے ہونے ہیں، ابهی تقسیم باقی ہے
عجب عالم ہے دل کا بهی، اداسی موجزن سی  ہے...