سب لوگ لِئے سنگِ ملامت نکل آئے
کِس شہر میں ہم اہلِ محبّت نکل آئے
اب دل کی تمنّا ہے تو، اے کاش یہی ہو
آنسو کی جگہ، آنکھ سے حسرت نکل آئے
ہر گھر کا دِیا گُل نہ کرو تم کہ، نہ جانے
کِس بام سے خورشیدِ قیامت نکل آئے
جو درپئے پندار ہیں، اُن قتل گہوں سے
جاں دے کے بھی سمجھو کہ سلامت نکل آئے
اے ہم...