غزلِ
شوکت علی خاں فانی بدایونی
اُن کی کسی ادا پہ جفا کا گماں نہیں
شوخی ہے جو بسلسلۂ امتحاں نہیں
دیکھا نہیں وہ جلوہ جو دیکھا ہُوا سا ہے
اِس طرح وہ عیاں ہیں، کہ گویا عیاں نہیں
نا مہربانیوں کا گِلہ تم سے کیا کریں !
ہم بھی کچھ اپنے حال پہ اب مہرباں نہیں
اب تک لگاوٹیں ہی سہی، لاگ تو نہیں...
طبیعت بخیر و خوشحال، زلفی شاہ صاحب !
بہت دن بعد نظر آئے بھائی
استاد اور مجھے بھی، کابلی بادام بھجوادیں کہ افاقہ کے ساتھ
لفظ کھانے کے بجائے بھیجی سوغات کھائی جائے
شمشاد بھائی نے تو چلغوزے مہنگے ہیں کہہ کر جان چُھڑوائی تھی
پچھلی فرمائش سے
غزلِ
استاد قمرجلالوی
وہ نہ آئیں گے کبھی دیکھ کے کالے بادل
دو گھڑی کے لیے، اللہ ! ہٹا لے بادل
آج یوں جُھوم کے کچُھ آگئے کالے بادل
سارے میخانوں کے کھلوا گئے تالے بادل
آسماں صاف شبِ وصل سحر تک نہ ہُوا
اُس نے ہر چند دُعا مانگ کے ٹالے بادل
بال کھولے ہوئے، یوں سیر سرِ بام نہ کر
تیری زُلفوں...
غزلِ
استاد قمرجلالوی
حُکمِ صیّاد ہے، تا ختمِ تماشائے بہار!
ساری دنیا کہے، بلبل نہ کہے! ہائے بہار
صبح گُلگشت کو جاتے ہو، کہ شرمائے بہار
کیا یہ مطلب ہے گلستاں سے نِکل جائے بہار
منہ سے کچُھ بھی دمِ رُخصت نہ کہا بُلبُل نے
حرف صیّاد نے اِتنا تو سُنا ہائے بہار
یہ بھی کچُھ بات ہوئی، گُل ہنسے...
بہت خوب انتخاب فاتح صاحب !
تشکّر شیئر کرنے پر :)
میں تِرے راگ سے اِس طرح بھرا ہُوں جیسے
کوئی چھیڑے تو اِک نغمۂ عِرفاں بن جاؤں
لگتا ہے دوسرے مصرع میں کوئی حرف درج ہونے سے رہ گیا ہے
شاید یوں ہو !
کوئی چھیڑے تو میں اِک نغمۂ عِرفاں بن جاؤں
؟
بہت خوش رہیں :)
جن سے نیکی کی توقع ہو، وُہی نام دھریں
ایک یہ وقت بھی، قسمت میں مِری آنا تھا
بے سبب ترکِ تعلق کا بڑا رنج ہُوا !
لاکھ رنجش سہی، اِک عمر کا یارانہ تھا
نصیر احمد نصیر
وہ تو بس وعدۂ دِیدار سے بہلانا تھا
ہم کوآنا تھا یقیں، اُن کو مُکر جانا تھا
لاکھ ٹُھکرایا ہمیں تُو نے، مگر ہم نہ ٹلے
تیرے قدموں سےالگ ہو کےکہاں جانا تھا
نصیر احمد نصیر