حُضور اِتنا بهی کیا مُجھ کو سَتانا
بَنائے گا بہت باتیں زمانہ
مَگر ہے بجلیوں کی تاب اِس کو
اگرچہ جل چُکا ہے آشیانہ
یہ کہنا میرے قاصد جا کے اُن سے
نہ مَر جائے کہیں تیرا دِوانہ
نہیں یہ زَیب دیتا عاشِقوں کو
یہ بیماروں کو اپنے آزمانا
اُٹهائے بهار اپنی جاں کا بیٹهے
بَهلا کب تک یہ تیرا ناتوانا
اگر...