مُدّت ہُوئی کہ بیچ میں پیغام بھی نہیں
نامے کا اُس کے مُہر سے اب نام بھی نہیں
ایّام ہجر کریے بسر کِس اُمید پر !
مِلنا اُنھوں کا صُبْح نہیں، شام بھی نہیں
پَروا اُسے ہو کاہے کو، ناکام گر مَروں
اُس کام جاں کو، مجھ سے تو کُچھ کام بھی نہیں
رویں اِس اِضطرابِ دِلی کو کہاں تلک !
دن رات ہم کو ایک...