چاند نِکلے کسی جانب تِری زیبائی کا
رنگ بدلے کسی صورت شبِ تنہائی کا
دولتِ لب سے پھر اے خسروِ شیریں دہناں
آج ارزاں ہو، کوئی حرف شناسائی کا
ایک بار اور مسیحائے دلِ دل زدگاں !
کوئی وعدہ ، کوئی اقرار مسیحائی کا
فیض احمد فیض
آج تنہائی کسی ہمدمِ دیریں کی طرح
کرنے آئی ہے مِری ساقی گری شام ڈھلے
منتظرِ بیٹھے ہیں ہم دونوں، کہ مہتاب اُبھرے
اور تِرا عکس جھلکنے لگے ہر سائے تلے
فیض احمد فیض
جنونِ بے سروساماں کی بات کون کرے
خِزاں نہ ہو تو بیاباں کی بات کون کرے
گُلاب و نرگِس و ریحاں کی بات کون کرے
جو تم مِلو ، تو گُلِستاں کی بات کون کرے
قابل اجمیری