You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
-
کیا بَچُوںْگا میں کہ ، دل کے مِرے خَمیازوں نے
ایک ٹانکہ، نہ میرے زخمِ جگر پر رکھّا
غلام ہمدانی مصحفی
-
اُس کی آنکھوں کو نہ دیکھا کبھی دِینْداروں نے
جُرمِ نظّارہ عَبث میری نَظر پر رکھّا
غلام ہمدانی مصحفی
-
بہرا ہُوں میں تو چاہیے، دُونا ہو اِلتفات
سُنتا نہیں ہُوں بات مکرّر کہے بغیر
اسداللہ خاں غالب
-
ساتھ شوخی کے کُچھ حجاب بھی ہے
اِس ادا کا، کہیں جواب بھی ہے؟
داغ دہلوی
-
رحم کر میرے حال پر واعظ
کہ اُمنگیں بھی ہیں شباب بھی ہے
داغ دہلوی
-
افسانۂ رقیب بھی لو بے اثر ہُوا
بگڑی جو سچ کہے سے، وہاں جُھوٹ کیا چلے
داغ دہلوی
-
رکھّا دِل و دماغ کو تو روک تھام کر
اِس عمرِ بیوفا پہ مِرا زور کیا چلے
داغ دہلوی
-
مجھے جو بھی دشمنِ جاں مِلا، وہی پختہ کارِ جفا مِلا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی، نہ کسی کا تِیر خطا ہُوا
اقبال عظیم
-
مت سمجھ میرے تبسّم کو مُسّرت کی دلِیل
جو مِرے دل تک اُترتا ہو یہ وہ زِینہ نہیں
خورشید رضوی
-
میں روز اِدھر سے گُزرتا ہُوں کون دیکھتا ہے
میں جب اِدھر سے نہ گُزروں گا کون دیکھے گا
مجید امجد
-
میں ہُوں کہ وہی، چال سمجھنے سے ہُوں قاصر !
قسمت ہے کہ، ہر کھیل نیا کھیل رہی ہے
جلیل نظامی
-
وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ
اب تو ہم بات بھی کرتے نہیں غمخوار کے ساتھ
احمد فراز
-
ایک تو، خواب لئے پھرتے ہو گلیوں گلیوں
اُس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ
احمد فراز
-
قصۂ سازشِ اغیار، کہوں یا نہ کہوں
شکوۂ یارِ طرحدار کروں یا نہ کروں
فیض احمد فیض
-
وہ سراپا سامنے ہے، استعارے مُسترد
چاند، جگنو، پھول، خوشبو اور ستارے مُسترد
ظفر اقبال
-
سُن کر مرا فسانہِ غم ، اُس نے یہ کہا
دوچارجُھوٹ و سچ ، یہی خُوبی زباں کی ہے
داغ دہلوی
-
نہ گُل اپنا نہ خار اپنا، نہ ظالِم باغباں اپنا
بنایا آہ ! کِس گلشن میں ہم نے آشیاں اپنا
نظیر اکبر آبادی
-
تِری بَلا سے گروہِ جنُوں پہ کیا گُزری
تُو اپنا دفترِ سُود و زیاں سنبھال کے رکھ
افتخار عارف
-
روک پائے گی نہ زنجیر نہ دیوار کوئی
اپنی منزل کا پتہ آہِ رسا جانتی ہے
منظر بھوپالی
-
یہ برق نشیمن پہ گِری تھی، کہ قفس پر
مُرغانِ گرفتار بڑی دیر سے چُپ ہیں
احمد فراز