اتنے خاموش کبھی رات کے تارے بھی نہ تھے
اور یوں مُہر بہ لب زخم ہمارے بھی نہ تھے
کیسی عُجلت میں کِیا اپنوں نے اقرارِ شکست !
جنگ غیروں سے مُکمل ابھی ہارے بھی نہ تھے
شب کی تزئین کی خاطر ہمیں جانا ہی پڑا
شام کے کام ابھی ہم نے سنْوارے بھی نہ تھے
کاغذی ناؤ تھی، منجدھار میں دم توڑ گئی
پاس پتوار بھی...