نہیں ہو پاس بھی ہو پاس تم مگر میرے
وہ اور بات تھی ہوتے جو تم اگر میرے
رہینِ دِل ہو تو ہر فکر، ہر خیال میں تم
رہے ہو تم ہی تو ہر راہ ہمسفر میرے
شفیق خلؔش
سِراؔج اورنگ آبادی
جاناں پہ جی نثار ہُوا، کیا بَجا ہُوا
اُس راہ میں غُبار ہُوا کیا بَجا ہُوا
مُدّت سے رازِ عِشق مِرے پر عیاں نہ تھا
یہ بَھید آشکار ہُوا، کیا بَجا ہُوا
تازے کِھلے ہیں داغ کے گُل، دِل کے باغ میں !
پِھر موسمِ بہار ہُوا، کیا بَجا ہُوا
دِل تجھ پری کی آگ میں سِیماب کی مثال
آخر کو...