بہت بسیط ہے دشتِ جفا کی تنہائی
قریب و دُور کوئی آہُوئے وفا بھی نہیں
مجھے تو عہد کا آشوب کر گیا پتّھر
میں درد مند کہاں، درد آشنا بھی نہیں
عارف عبدالمتین
غزل
جتنے کم مجھ سے مُلاقات کے اِمکاں ہونگے
اُتنا اُتنا ہی، وہ مِلنے کو پریشاں ہونگے
ہیں فقط ہم ہی نہیں دِید کے طالِب اُس کے !
گھر سے نِکلیں جو کبھی جان کے حیراں ہونگے
ہر قدم اُس کو دِلائے گا مِرا ہی احساس
اُس کی راہوں میں بِچھے یُوں مِرے ارماں ہونگے
پھر بہار آئی گی، اور پھر مِری یادیں...