غزل
کوئی پیکر ہے، نہ خوشبُو ہے، نہ آواز ہے وہ
ہاتھ لگتا ہی نہیں، ایسا کوئی راز ہے وہ
ایک صُورت ہے جو مِٹتی ہے، بَنا کرتی ہے
کبھی انجام ہے میرا ،کبھی آغاز ہے وہ
اُس کو دُنیا سے مِری طرح ضَرر کیوں پُہنچے
میں زمانے کا مُخالِف ہُوں، جہاں ساز ہے وہ
لوگ اُس کے ہی اِشاروں پہ اُڑے پِھرتے ہیں
بال...