لبوں پہ پُھول کِھلتے ہیں کسی کے نام سے پہلے
دِلوں کے دیپ جلتے ہیں چراغِ شام سے پہلے
کبھی منظر بدلنے پر بھی قِصّہ چل نہیں پاتا
کہانی ختم ہوتی ہے کبھی انجام سے پہلے
یہی تارے تمہاری آنکھ کی چلمن میں رہتے تھے
یہی سُورج نکلتا تھا تُمہارے بام سے، پہلے
دِلوں کی جگمگاتی بستیاں تاراج کرتے ہیں
یہی جو...